April 19, 2025 12:57 pm

English / Urdu

Follw Us on:

اسرائیل کیسے فلسطینیوں کا ورثہ تباہ کر رہا ہے؟

حسیب احمد
حسیب احمد

جب 800 سال پرانا پاشا پیلس اسرائیلی بمباری کی لپیٹ میں آیا تو صرف پتھر نہیں ٹوٹے بلکہ ایک تہذیب ایک تاریخ اور ایک قوم کی شناخت کے نشان بھی راکھ بن گئے۔

غزہ کے مرکز میں موجود یہ عظیم الشان محل جو مملوک اور عثمانی دور کی جیتی جاگتی یادگار تھا اب صرف خاکستر میں دفن ایک ماضی کی کہانی بن چکا ہے۔

یہ وہی پاشا پیلس تھا جہاں نپولین بوناپارٹ نے راتیں گزاریں، جہاں سنہری پتھر کی دیواریں آسمان کو چھوتی تھیں اور جہاں عجائب گھر کے ٹھنڈے ہال سینکڑوں نایاب نوادرات کو محفوظ رکھتے تھے۔ لیکن اسرائیل کے ظالمانہ حملوں نے نہ صرف دیواریں گرا دیں بلکہ اس عمارت کی روح بھی چھین لی۔

عجائب گھر کے ڈائریکٹر حمودہ الدحدہ کی بارہ سالہ بیٹی مروت بھی اس وقت شہید ہوگئی جب ایک دھماکے میں ان کا پورا خاندان اس محل کے ملبے تلے آ گیا۔

یہ صرف ایک عمارت کی کہانی نہیں، یہ فلسطینی تاریخ کی تباہی کا وہ سلسلہ ہے جسے اسرائیلی جارحیت نے بےرحمی سے جاری رکھا ہوا ہے۔

 پاشا پیلس کے قریب واقع 700 سال پرانا حمام السمرہ بھی اس تباہی کا شکار ہوا۔ اس کے محافظ، 74 سالہ سلیم الوزیر جو 1970 سے اس تاریخی مقام کے نگہبان تھے، جب جنگ کے بعد پہلی بار واپس لوٹے تو اُن کے سامنے اس پیلس کا صرف ملبہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ “میں نے اپنا ماضی کھو دیا، اپنا خاندان اور اپنے شہر کی اجتماعی یادداشت کا ایک ٹکڑا بھی۔ یہ صرف پتھر نہیں تھے یہ ہماری شناخت تھی۔”

منہاج یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر نواب سجاد نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اسرائیلی فوج نے 2024 سے فلسطینی عوام اور ان کے اسلامی مقدس مقامات کی پامالی کر رہی ہے۔ جب کہ یہ بہادر قوم اپنے حقوق پر ثابت قدم ہے اور اسرائیلی فورسز کے حملوں کے باوجود اپنے ورثے کا دفاع جاری رکھے ہوئے ہے ۔”

اسرائیل کی بمباری نے پورے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے 48 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔

اس کے علاوہ صاف پانی، ادویات، سڑکیں، اسکول، ہسپتال اور مساجد سب کچھ یا تو تباہ ہو چکا ہے یا ناقابلِ استعمال ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین اور برطانوی آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ کے دو تہائی ثقافتی ورثے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔

اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف ان عمارتوں کو نشانہ بناتے ہیں جہاں مبینہ طور پر حماس کا استعمال ہوتا ہے، لیکن بین الاقوامی ماہرین اور شواہد بتاتے ہیں کہ ان حملوں میں بیشتر تاریخی مقامات کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا جو عالمی قوانین اور جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اس سب کے علاوہ غزہ کی سب سے قدیم اور بڑی مسجد جامعہ العمری، جس کی بنیاد بازنطینی دور میں رکھی گئی تھی اور بعد میں اسلامی فتح کے بعد گرجا گھر سے مسجد میں تبدیل کر دی گئی، اور اب یہ مسجد بھی اسرائیلی جارحیت کی نظر ہوگئی۔

اس کا تاریخی لکڑی کا منبر تو محفوظ رہا لیکن چھت گر چکی ہے، دیواریں زمیں بوس ہیں اور مینار ٹوٹ بھی چکا ہے۔

یہ صرف عبادت گاہیں یا یادگاریں نہیں، بلکہ فلسطینیوں کی اجتماعی یادداشت، ان کی شناخت اور مزاحمت کی علامت ہیں۔

منہاج یونیورسٹی سے بین القوامی امور کے ماہر ڈاکٹر سید نعمان علی شاہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک ایسی قابض اور ظالم ریاست بن چکا ہے جو انسانیت کے جنازے پر سیاست کا کھیل کھیل رہا ہے، جس کے ٹینکوں نے نا سمانے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھا اور نا ہی فلسطینی خواتین کو دیکھا اور بس مسلمانوں کی لاشیں گراتے چلے گئے اور اب ان کی نام نہاد جمہوریت مظلوموں کے قبرستان پر کھڑی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسرائیل وہ ناسور ہے جو میڈل ایسٹ کے سینے میں زبردستی گھسا دیا گیا، جہاں نہ عدل ہے نہ رحم، صرف ظلم ہے، بارود ہے اور تباہی ہے۔ بس اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اس بدماش ریاست کو نست و نعبود کردے، آمین۔

دوسری جانب 60 سالہ طارق ہنیہ، جو دہائیوں سے جامعہ العمری کے ٹور گائیڈ تھے وہ کہتے ہیں کہ “جنگ نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا ہے، میرے دوست، میرا گھر اور میری مسجد۔ لیکن ہم اسے دوبارہ تعمیر کریں گے یہ ہمارا وعدہ ہے۔”

جہاں دنیا ترقی کی دوڑ میں مصروف ہے وہیں فلسطینی اپنے ورثے کی قبروں پر کھڑے ہو کر اُمید کی شمعیں روشن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حالات بہتر ہوں تو صرف عارضی تحفظ میں ہی 33 ملین ڈالر خرچ ہوں گے اور مکمل بحالی میں آٹھ سال لگ سکتے ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی سننے والا ہے ہی نہیں کیونکہ دنیا کی نظریں شاپنگ مالز اور بلند و بالا ہوٹلوں پر ہیں، پرانے پتھروں اور شکستہ دیواروں پر نہیں۔

امریکا اور مغربی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں، جب کہ فلسطینی نہتے ہونے کے باوجود اپنی شناخت کے لیے، اپنی تاریخ کے لیے اور اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔

اس جنگ کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ دنیا نے فلسطینی بچوں کی چیخیں، تباہ شدہ اسکولوں کی خاک اور مسجدوں کے ملبے پر بہتا خون دیکھ کر بھی چپ سادھ لی ہے۔

لیکن غزہ کے لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ “ہم اپنے ماضی کو دوبارہ زندہ کریں گے، اگر کوئی نہیں آیا تو ہم خود اپنی قبروں سے اٹھ کر اپنے ورثے کو از سر نو تعمیر کریں گے۔ کیونکہ یہ صرف ہمارا نہیں بلکہ انسانیت کا ورثہ ہے۔”

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس