یمن کی سرزمین ایک بار پھر لہو سے تر ہوگئی، جمعرات کے روز امریکی جنگی طیاروں نے ملک کے مغربی ساحل پر واقع آئل پورٹ راس عیسیٰ پر مہلک حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 38 افراد شہید اور 102 زخمی ہو گئے۔
یہ حملہ امریکی افواج کی جانب سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی عسکریت پسندوں کے خلاف جاری سب سے بڑے فوجی آپریشن کا حصہ بتایا جا رہا ہے جو مشرق وسطیٰ میں نئی جنگی فضا پیدا کر رہا ہے۔
سپین کے نشریاتی ادارے ایجنسی المسیرہ ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والی بندرگاہ نہ صرف عام شہریوں کے لیے ایندھن کا اہم ذریعہ تھی بلکہ وہاں موجود مزدوروں کی بڑی تعداد بھی اس حملے میں متاثر ہوئی جبکہ زخمیوں میں کئی افراد کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے جس کے باعث شہادتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
دوسری جانب واشنگٹن نے اپنی صفائی میں کہا ہے کہ یہ حملے دراصل حوثیوں کی معاشی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں جو کہ امریکا کے مطابق خطے میں بدامنی کا سبب بن رہے ہیں اور “اپنے ہی ہم وطنوں کا استحصال کر رہے ہیں”۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ “یہ حملے حوثی گروپ کو ایندھن سے حاصل ہونے والی آمدنی سے محروم کرنے کے لیے ضروری تھے۔”
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کیسے فلسطینیوں کا ورثہ تباہ کر رہا ہے؟
اس کے علاوہ حوثی قیادت کا کہنا ہے کہ امریکی حملے صرف عسکری اہداف پر نہیں بلکہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان کے مطابق مارچ میں دو روز تک جاری رہنے والے امریکی حملوں میں بھی 50 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ نومبر 2023 سے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے بین الاقوامی بحری جہازوں پر درجنوں ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں۔
ان کا مؤقف ہے کہ یہ حملے دراصل اسرائیل کے خلاف احتجاج کا حصہ ہیں جو غزہ پر جاری مظالم کے جواب میں کیے جا رہے ہیں۔ اگرچہ دو ماہ کی جنگ بندی کے دوران یہ حملے تھم گئے تھے مگر حالیہ ہفتوں میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کی تجدید کے بعد حوثیوں نے دوبارہ حملے شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا تاہم اس کے بعد کسی حملے کی ذمہ داری انہوں نے واضح طور پر قبول نہیں کی۔
امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر حوثیوں نے اپنے حملے بند نہ کیے تو وہ اپنی کارروائیاں مزید تیز کر دے گا۔
دفاعی ماہرین کے مطابق یہ ایک خطرناک اعلان ہے جو خطے میں مزید بگاڑ کا باعث بن سکتا ہے۔
یمن میں راس عیسیٰ بندرگاہ پر امریکی حملہ نہ صرف وہاں کے مکینوں کے لیے قیامت خیز لمحہ تھا بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک نئے تنازعے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اقوامِ متحدہ اور علاقائی طاقتیں اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کر چکی ہیں لیکن سوال یہ ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی ضمیر اس خون ریزی کے خلاف جاگے گا یا صرف مذمتی بیانات ہی جاری ہوتے رہیں گے؟
مزید پڑھیں: غزہ پر ظلم کی انتہا: اسرائیلی بمباری میں مزید 32 فلسطینی شہید ہوگئے