روم میں آج ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات کا دوسرا اور نہایت اہم مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے، ایسا مرحلہ جس سے خطے کے مستقبل کا تعین ہو سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایران نے اپنی یورینیم افزودگی پر محدود پیمانے پر پابندیاں قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ، کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ تحریری طور پر ضمانت دیں کہ وہ طے شدہ معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ماسکو میں روسی ہم منصب سے ملاقات کے دوران اہم اشارہ دیا کہ تہران، روس کے تعاون سے امریکا کے ساتھ کسی درمیانی راہ پر متفق ہو سکتا ہے۔
روسی وزیر خارجہ نے بھی کھل کر کہا کہ روس، ایران-امریکا مذاکرات میں “پل” کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب واشنگٹن میں سخت موقف برقرار ہے۔ صدر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ “ایران خواب دیکھنا بند کرے، وہ کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا۔”
اب سوال یہ ہے کہ کیا روم کے ایوانوں میں کوئی ایسا معاہدہ طے پاتا ہے جو خطے میں امن کی نئی امید جگا سکے۔
مزید پڑھیں: امریکا یوکرین معاہدہ: دونوں ممالک میں قیمتی معدنیات پر مفاہمت طے پا گئی