سندھ میں پنجاب کی مجوزہ نہروں کے خلاف وکلا کی ہڑتال اور احتجاج کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔ سندھ بار کونسل کی اپیل پر صوبے بھر میں عدالتیں عملاً بند ہیں اور مقدمات کی سماعت معطل ہے۔
کراچی میں وکلا نے سندھ ہائی کورٹ کی مرکزی عمارت کے دروازے بند کر دیے اور سائلین کے ساتھ عدالتی عملے کو بھی اندر جانے سے روک دیا۔ اسی طرح سٹی کورٹ کے داخلی دروازے تالہ بندی کے باعث بند پڑے ہیں، جس سے زیر سماعت مقدمات کی پیروی کرنے والے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
سکھر میں ببرلو بائی پاس پر وکلا کا دھرنا ساتویں روز میں داخل ہو چکا ہے اور اندرونِ سندھ کی بیشتر ذیلی عدالتوں میں بھی کام ٹھپ ہے۔ وکلا رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ پنجاب کے مجوزہ کینال منصوبے سندھ کے زرعی علاقوں کو پانی کی شدید قلت سے دوچار کر دیں گے، اس لیے یہ منصوبہ فی الفور منسوخ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: غیر قانونی افغان باشندے: اب تک کُل پانچ لاکھ 20 ہزار لوگ افغانستان جا چکے ہیں
دوسری طرف وفاق اور پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ نہروں کے بارے میں کیے جانے والے اعتراضات بے بنیاد ہیں۔ وفاقی حکام کا مؤقف ہے کہ ارسا ایکٹ کی موجودگی میں کوئی صوبہ کسی دوسرے صوبے کے حصے کا پانی نہیں لے سکتا، اس لیے متنازع نہروں کے حوالے سے پھیلائی جانے والی تشویش سیاسی رنگ رکھتی ہے۔

پنجاب سے آنے والے بیانات پر سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت اپوزیشن کی کئی جماعتیں مشتعل ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ واضح الفاظ میں متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر وفاق نے متنازع کینال منصوبہ واپس نہ لیا تو پیپلز پارٹی مرکز میں اتحادی حکومت سے علاحدگی پر غور کرے گی۔
صوبے میں جاری مظاہروں کے باعث ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی ہے اور عدالتوں میں ہزاروں مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ وکلا برادری نے اعلان کیا ہے کہ جب تک پنجاب اپنا کینال منصوبہ مکمل طور پر منسوخ نہیں کرتا، صوبے بھر میں عدالتی بائیکاٹ اور دھرنے جاری رہیں گے۔
صورتحال میں بہتری کے لیے وفاقی اور صوبائی رہنماؤں کے درمیان بامعنی مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے، تاہم فی الحال فریقین کے مؤقف میں لچک دکھائی نہیں دیتی۔