22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں ایک دہشت گرد حملے نے پورے جنوبی ایشیا میں اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی۔ حملے میں 26 افراد جاں بحق اور 17 زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وادی کشمیر میں سیاحت اپنے عروج پر تھی اور پہلگام میں سینکڑوں سیاح موجود تھے۔ حملے کی ذمہ داری ایک نسبتاً غیر معروف گروہ “کشمیر ریزسٹنس” نے قبول کی۔ تاہم انڈین حکام اور میڈیا نے فوری طور پر اس واقعے کا تعلق پاکستان سے جوڑ دیا۔
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے حملے کے بعد اپنا بیرون ملک دورہ منسوخ کرتے ہوئے فوری طور پر نئی دہلی واپسی اختیار کی، جہاں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ اس کے بعد انڈیا کی جانب سے کئی غیر معمولی اقدامات سامنے آئے۔ سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا گیا، واہگہ بارڈر بند کر دیا گیا، پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے گئے اور انڈیامیں تعینات پاکستانی سفارتی عملے کو محدود کرنے کے اقدامات کیے گئے۔ انڈین وزارت خارجہ نے الزام عائد کیا کہ حملہ آوروں کو پاکستان میں تربیت اور معاونت حاصل تھی۔
پاکستان نے حملے کی فوری اور واضح مذمت کی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اسے ایک افسوسناک اور قابلِ مذمت واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی بھی دہشت گرد کارروائی کی حمایت نہیں کرتا اور انڈیا بغیر کسی ثبوت کے الزامات عائد کر کے خطے کے امن کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ پاکستان نے جوابی اقدام کے طور پر انڈین فضائی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کی، دو طرفہ تجارت معطل کی اور انڈیا میں موجود پاکستانی شہریوں کو فوری واپسی کی ہدایات جاری کیں۔

اسی حوالے سے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر اقتصادیات مفتاح اسماعیل نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے ردعمل کو “معقول اور غیر متنازعہ” قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ ” انڈیا نے پاکستان پر الزامات تو عائد کیے ہیں، مگر ان کے پاس کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے کہ ریاستِ پاکستان اس حملے میں ملوث ہے۔ حکومتِ پاکستان نے موجودہ صورتحال پر انتہائی ذمہ داری اور سنجیدگی سے ردعمل دیا ہے۔ انڈیا کا یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم کرنا نہ صرف غیر مناسب بلکہ غیر قانونی بھی ہے کیونکہ یہ معاہدہ عالمی ادارے، جیساکہ ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا اسے کسی ایک فریق کی مرضی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔”
وفاقی وزیر احسن اقبال نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر سبوتاژ کرنے کی کوششیں انتہائی تشویشناک ہیں یہ معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس پر انڈیا کی بد نیتی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، پاکستان اپنے پانی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا، میں عالمی برادری سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ انڈیا کی گمراہ کن چالوں کو پہچانے، کشمیریوں کے حق خودارادیت، علاقائی امن اور انصاف کے لیے اپنی آواز بلند کرے۔
ماہرِآبی امور ڈاکٹر بشیر لاکھانی نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ ” اس وقت انڈیا اس پوزیشن میں ہے کہ چھے سے سات ماہ میں پاکستان کا پانی مکمل بند کردے پاکستان کی حکومت کو اس حوالے سے بھرپور جواب دینے یا پھر دریاؤں پر اس قسم کی رکاوٹوں کو بم سے اڑا دینا چاہیے پاکستان کے پاس 10 دن کا پانی محفوظ رکھنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے۔”

ان بیانات سے واضح ہے کہ پاکستان معاملے کو بین الاقوامی قانون کے دائرے میں دیکھنے کا خواہش مند ہے، جب کہ انڈیا کی طرف سے یکطرفہ اقدامات خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ اس واقعے نے نہ صرف انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کو مزید نقصان پہنچایا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی ایک بار پھر جنوبی ایشیا کے حساس توازن پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور تنازع کو سفارتی راستوں سے حل کریں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے حملے اور ان کے بعد کی الزامی سیاست اس خطے کو امن کی طرف لے جا سکتی ہے؟ مسئلہ کشمیر کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ رہا ہے۔ پہلگام حملہ اس امر کی تازہ یاددہانی ہے کہ جب تک اس مسئلے کو کشمیری عوام کی امنگوں، اقوام متحدہ کی قراردادوں، اور دوطرفہ و بین الاقوامی اعتماد سازی کی بنیاد پر حل نہیں کیا جاتا، تب تک جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ایک خواب ہی رہے گا