سینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ اور منشیات کا کہنا ہے کہ سعودی حکام نے جعلی پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے 1,296 افراد کی شناخت کی ہے، جن کے بعد افغان شہری ہونے کی تصدیق کی گئی ۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سینیٹر فیصل سلیم رحمان نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو ہدایت کی کہ وہ بوگس دستاویزات کے اجراء اور قومی ڈیٹا بیس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے متعلق کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں تفصیلی اپ ڈیٹ فراہم کرے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر رحمان کی زیر صدارت ہوا،اجلاس میں سینیٹر عرفان صدیقی نے سوال کیا کہ گزشتہ 5 سالوں میں کتنے ایسے پاسپورٹ بنائے گئے جو پاکستانیوں کے نہیں تھے۔
ڈی جی پاسپورٹ مصطفیٰ جمال قاضی نے بتایا کہ جعلی پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے کل 1,296 افراد کی شناخت بعد میں افغان شہریوں کے طور پر ہوئی۔
ڈی جی پاسپورٹ کا کہنا تھا کہ بتایا گیا ہے کہ ان افراد کو افغانستان ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو جعلی پاسپورٹ بنانے پر سزا دی گئی ان میں سے 35 اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں۔
اس کے علاوہ ہزاروں بوگس پاکستانی پاسپورٹ بنائے گئےاور ان میں سے زیادہ تر پاسپورٹ کے پی اور گوجرانوالہ، گجرات کے ہیں۔ 4500 پاسپورٹ ایسے ہیں جن کا ڈیٹا ہمارے پاس نہیں ہے جبکہ 3000 پاسپورٹ فوٹو سویپنگ کے ذریعے بنائے گئے، 6000 جعلی پاسپورٹ نادرا کے ڈیٹا میں گھس کر بنائے گئے، یہ 12000 بوگس پاسپورٹ رکھنے والے پاکستان میں نہیں ہیں۔
کمیٹی نے شناختی کارڈز کی میعاد ختم ہونے کے حوالے سے اصلاحات پر بھی بات کی۔ چیف آپریٹنگ آفیسر، نادرا نے وضاحت کی کہ، نادرا کے قوانین کے مطابق، ہر شناختی کارڈ کی ہر دس سال بعد تجدید ہونی چاہیے۔
اجلاس کے دوران چیئرمین نے حقیقی شناختی کارڈ رکھنے والوں کے خاندانی درختوں میں غیر متعلقہ افراد کو شامل کرنے کا معاملہ اٹھایا۔
اس طرح کے دھوکہ دہی کا مقابلہ کرنے کے لیے، نادرا نے اب ایک پالیسی اپنائی ہے جس میں درخواست گزار کے خون کے رشتہ داروں کی جسمانی تصدیق کے ساتھ ساتھ خاندان کے رکن کی بائیو میٹرک کیپچر بھی ضروری ہے