Follw Us on:

امریکی سرپرستی میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت: کیا پاکستان میں فلسطین کی حمایت بڑھ رہی ہے؟ 

مادھو لعل
مادھو لعل

غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری، شہروں کی تباہی، اسپتالوں کی بربادی اور بچوں کی لاشیں، عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں تو شاید ناکام رہی ہیں، مگر پاکستان میں یہ منظر نامہ عوامی سطح پر شدید ردِعمل اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا سبب بن چکا ہے۔

امریکہ کی کھلی سرپرستی میں اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف حالیہ کارروائیوں نے پاکستان بھر میں احتجاج، ہڑتالیں اور ریلیوں کی لہر کو جنم دیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ وقتی ردعمل ہے یا پاکستان میں فلسطین کی حمایت ایک نئی تحریک کی صورت اختیار کر رہی ہے؟

اکتوبر 2023 سے غزہ پر اسرائیلی بمباری کے آغاز کے بعد سے اب تک 61 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعدادبچوں اور خواتین کی ہے۔ اس ظلم و ستم کے خلاف پاکستانی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد روز کا معمول بن چکا ہے۔

کراچی، لاہور، ملتان، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سمیت تمام بڑے شہروں میں جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین اور دیگر مذہبی و سماجی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ تعلیمی اداروں، مزدور یونینز اور صحافتی حلقوں نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔

حالیہ دنوں میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے جماعت اسلامی کی اپیل پر 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا، جسے تاجروں، وکلا اور مختلف تنظیموں کی جانب سے غیر معمولی حمایت ملی۔ کراچی کی بڑی مارکیٹیں جیسے اردو بازار، ریگل چوک، کمپیوٹر مارکیٹ، کپڑا مارکیٹ، تین تلوار، کلف مارکیٹ اور گلف سینٹر مکمل طور پر بند رہیں۔

اسی طرح، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور پشاور میں بھی تاجروں نے کاروباری سرگرمیاں معطل رکھ کر فلسطینیوں سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ ریلیوں کے دوران “غزہ جل رہا ہے، اُمت سو رہی ہے”، “اسرائیل مردہ باد” اور “فلسطین کے بچوں کا خون ہم پر قرض ہے” جیسے بینرز دیکھنے میں آئے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر پاکستانی صارفین نے فلسطینیوں کے حق میں پوسٹس، ویڈیوز اور گرافکس کے ذریعے بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے۔ ہیش ٹیگزاور ،#GazaUnderAttack ،#FreePalestine#BoycottIsraelمسلسل ٹرینڈ کرتے رہے۔

نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی، جس میں معروف برانڈز کے خلاف باقاعدہ فہرستیں جاری کی گئیں اور متبادل مقامی مصنوعات کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔

اگرچہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی کھلے الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اور اقوامِ متحدہ سمیت دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا گیا، تاہم عوامی حلقوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ صرف مذمت کافی نہیں۔

پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد یہ چاہتی ہے کہ حکومت عملی اقدامات کرے، مثلًا او آئی سی کے پلیٹ فارم پر مؤثر سفارتی کوششیں، اسرائیلی مصنوعات پر پابندی اور فلسطینی مہاجرین کے لیے امدادی پیکج۔

ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھی فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے تقاریر، سیمینارز اور خصوصی دعائیہ اجتماعات منعقد کیے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی طلبہ کی جانب سے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا، جن میں غزہ میں ہونے والی تباہی پر افسوس اور امریکہ و اسرائیل کے خلاف نعرے بازی شامل تھی۔

مذہبی جماعتوں نے فلسطین کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا ہے۔ جمعہ کے اجتماعات میں خطبوں کے دوران فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر اور اُمت مسلمہ کی بے حسی پر تنقید کی جا رہی ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف عربوں کا نہیںبلکہ پوری امت کا ہے اور ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں آواز بلند کرے۔

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مؤقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی زمین، ان کا وطن اور ایک خودمختار ریاست حاصل ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوبین کی تقاریر میں بارہا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان نے حالیہ کشیدگی کے دوران اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں بھی فلسطینی عوام کی حمایت میں زور دار تقریر کی، جسے عرب اور غیر عرب مسلم ممالک نے سراہا۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام کا یہ جذبہ وقتی ہے یا یہ ایک ایسی مستقل تحریک بننے جا رہی ہے جو فلسطین کے لیے عملی سیاسی، سماجی اور معاشی اقدامات کی طرف بڑھے گی؟

ماضی میں کئی بار فلسطین کے حق میں آوازیں اٹھیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ مدھم ہو گئیں۔ تاہم موجودہ صورتحال میں عوامی شعور،سوشل میڈیا کی طاقت اور نئی نسل کی فعال شرکت نے اس تحریک کو ایک نیا رخ دیا ہے۔

اگر یہ جذبہ مستقل مزاجی سے برقرار رہا، تو یہ محض احتجاج یا ہڑتال تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پاکستانی معاشرے کے اندر فلسطینی کاز کے لیے سنجیدہ اور دیرپا حمایت کا باعث بنے گا۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈوکیٹ نعمان چیمہ  نے کہا کہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا فلسطین کے مسئلے پر اتحاد ایک مثبت سیاسی اشارہ ہے، جو داخلی طور پر ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ یہ اتحاد فرقہ وارانہ اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک مشترکہ انسانی مقصد کے لیے آواز بلند کر رہا ہے، جو عوام میں بیداری اور یکجہتی کو فروغ دیتا ہے۔ اگر یہ اتحاد مخلصی سے جاری رہا تو اس کے پاکستان کی سیاسی فضا پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت اور دفترِ خارجہ نے عالمی فورمز پر فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرکے ایک واضح مؤقف اپنایا ہے، جو قابلِ تحسین ہے۔ تاہم، موجودہ حالات میں صرف بیانات کافی نہیں۔ عوامی جذبات اور زمینی حقائق کے پیش نظر پاکستان کو مزید مؤثر اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جیسے OIC میں فعال کردار، اسرائیلی مصنوعات پر پابندی، اور فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کی فراہمی۔ اس سے پاکستان کا مؤقف بین الاقوامی سطح پر مزید مضبوط ہوگا۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس