Follw Us on:

’ہماری مرضی ہماری قسمت‘ کا نعرہ لگانے والے کشمیری 77 سال بعد بھی آزادی کیوں نہ حاصل کر سکے؟

حسیب احمد
حسیب احمد

26 اکتوبر 1947 ایک دستخط نے کشمیر کی تقدیر بدل دی، جب مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیا لیکن کشمیری عوام کی اکثریت نے اسے “غیر قانونی” قرار دیا۔

اس دن سے آج تک، کشمیر وادی کے ہر گلی کوچے میں ایک ہی نعرہ گونجتا ہے “ہماری مرضی ہماری قسمت”۔ مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقوامِ متحدہ کی 18 قراردادیں، لاکھوں شہدا کا لہو اور دہائیوں کی جدوجہد کے باوجود کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے بین الاقوامی بہرے پن” کا شکار کیوں ہے؟

آج امریکا اور چین کی تجارتی جنگ نے کشمیر کو ایک جیو اسٹریٹجک چیلنج بنا دیا ہے۔ امریکا انڈیا کو “ایشیائی نیٹو” کا حصہ بنانا چاہتا ہے، جب کہ چین لداخ اور اکسائی چن پر اپنا دعویٰ مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔

اس وقت دونوں طاقتیں کشمیر کو انسانی المیہ کے بجائے صرف ایک اسٹریٹجک مسئلہ سمجھتی ہیں۔ جب کہ یورپ کی دوغلی پالیسی بھی اس کھیل کا حصہ ہے۔

انڈیا کے کشمیر کو خون سے سرخ کرنے کے باوجود کشمیری اپنے حق کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

برطانیہ، جس نے 1948 میں کشمیر کو اقوامِ متحدہ لے جانے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن آج آرٹیکل 370 کے خاتمے پر محض “تشویش” کا اظہار کرتا ہے کیونکہ اس کے انڈیا کے ساتھ  اربوں یورو سالانہ کے تجارتی تعلقات ہیں۔

دوسری جانب مسلم ممالک کی خاموشی بھی افسوسناک ہے۔ سعودی عرب اور UAE جیسے ممالک نے تیل کی فروخت اور انڈین سرمایہ کاری کی خاطر کشمیر کو انڈیا کا “اندرونی معاملہ” تسلیم کر لیا ہے۔

منہاج یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز کی طالبہ زینب علی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے کہا کہ “ہر کشمیری کی چیخ عالمی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ ہم کشمیر کو فلسطین کی طرح ایک طویل جدوجہد کی طرف بڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ دنیا ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر کشمیر کے حق میں آواز بلند کرے۔ ورنہ ظلم کے یہ زخم نسل در نسل ناسور بن جائیں گے۔”

5 اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔ انٹرنیٹ بند، صحافیوں کی گرفتاریاں اور “فیک نیوز” کا طوفان جاری ہے۔

بی بی سی اردو کے مطابق پہلی مرتبہ 1931 میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن پورے ہندوستان میں منایا گیا تھا۔ (فوٹو: ایکس)

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق وادی میں ۹ لاکھ فوجیوں کی موجودگی کے باوجود “آزاد میڈیا” کا وجود ممکن نہیں۔

آرٹیکل 370 کا خاتمہ انڈیا کی جانب سے ایک ترقیاتی اقدام قرار دیا جا رہا ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ کشمیری عوام کو اب “غیر قانونی آبادکاروں” کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی عالمی فورمز پر کشمیر کے لیے آواز اٹھانے کی کوششیں کمزور رہی ہیں۔ او آئی سی اور اقوامِ متحدہ میں پیش کی جانے والی قراردادیں “مذمتی بیانات” تک محدود رہیں جس کی بڑی وجہ پاکستان کا اقتصادی بحران اور امریکا پر انحصار ہے۔

منہاج یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم کشمیری طالب علم سفیر انجم نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے کہا کہ ” پاکستان کی کمزور سفارت کاری نے بھی مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں ناکامی دکھائی ہے۔ جب تک ایک مضبوط بین الاقوامی لابنگ اور متحدہ مسلم دنیا کی سفارتی حکمت عملی نہ اپنائی جائے تب تک کشمیر کو انصاف نہیں ملے گا۔ جب کہ وقت تیزی سے نکل رہا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ ” ہم کشمیری کبھی ہار نہیں مانیں والے، لیکن ہماری جدوجہد کو اس وقت نئی حکمت عملی، نئے اتحادی اور عالمی سطح پر زیادہ متحرک نمائندگی کی ضرورت ہے۔”

چین بھی اگرچہ پاکستان کا اتحادی ہے لیکن اس کی حمایت “مشروط” ہے۔ چین کشمیر پر صرف اسی حد تک ساتھ دیتا ہے جہاں تک اس کے اپنے مفادات خاص طور پر CPEC کا تحفظ، متاثر نہ ہو۔ بیجنگ کبھی بھی انڈیا کے خلاف مکمل جنگ کی حمایت نہیں کرے گا۔

کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کا خواب تاحال ادھورا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کو رائے شماری کا حق حاصل تو ہے لیکن انڈیا اس حق سے مسلسل انکار کر رہا ہے۔

آج ہر کشمیری گھر ایک قبرستان بن چکا ہے۔ نوجوان نسل نے اس جدوجہد کو نئی شکل دی ہے۔ 2019 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد نوجوانوں نے سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنایا۔

 #KashmirSolidarityDay اور #LetKashmirDecide جیسے ہیش ٹیگز نے وقتی طور پر عالمی توجہ حاصل کی لیکن بڑی طاقتوں کی خاموشی نے اس تحریک کو بے اثر کر دیا۔

اس کے علاوہ بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کے لیے پاکستان کو چین، روس اور ترکیہ کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ میں “کشمیر ٹریبونل” قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی، کشمیری ڈایاسپورا کو یورپ اور امریکا میں لابنگ کو مزید مضبوط کرنا ہوگا تاکہ عالمی رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔

 انڈیا کے “نریٹو” کو چیلنج کرنے کے لیے آزاد صحافیوں کو متحرک ہونا پڑے گا تاکہ دنیا کو کشمیر کی اصل کہانی پہنچائی جا سکے۔

کشمیر کا مسئلہ صرف ایک خطے کا نہیں، بلکہ انسانی ضمیر کا امتحان ہے۔ جب تک عالمی طاقتیں اپنے مفادات کو انسانی حقوق پر ترجیح دیتی رہیں گی کشمیر کی آواز دبائی جاتی رہے گی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کی دیواریں ہمیشہ ٹوٹتی ہیں۔

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس