Follw Us on:

فلسطین، مقبوضہ کشمیرکے حوالے سے او آئی سی کا مؤقف غیر مؤثر کیوں ہے؟

زین اختر
زین اختر
فلسطین، مقبوضہ کشمیرکے حوالے سے او آئی سی کا مؤقف غیر مؤثر کیوں ہے؟

جب 1969 میں اسلامی تعاون تنظیم یعنی او آئی سی کا قیام عمل میں آیا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلم دنیا کے مسائل کو یکجا انداز میں اجاگر کیا جائے اور ان کے لیے اجتماعی طور پر عملی اقدامات کیے جائیں۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت ہو یا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم، ان جیسے سلگتے مسائل پر او آئی سی کو مسلمانوں کی ایک طاقتور آواز تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت واضح ہوتی گئی کہ او آئی سی کی قراردادیں محض کاغذی کارروائی بن کر رہ گئی ہیں اور عملی میدان میں اس تنظیم کا کردار انتہائی کمزور نظر آتا ہے۔

فلسطین کے مسئلے پر او آئی سی کی اپوزیشن رسمی بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بربریت، مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں پر بدترین ظلم کے باوجود اسلامی دنیا سے کوئی مضبوط اجتماعی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

سعودی عرب جو او آئی سی کا بانی رکن ہے، اب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر غور کر رہا ہے، جب کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے ابراہام معاہدے کے تحت اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا ہے۔ ان بدلتے ہوئے سفارتی تعلقات کے پیش نظر او آئی سی کی جانب سے فلسطین کے حق میں آنے والے بیانات اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں۔

اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں بھی صورتحال مایوس کن ہے۔ بھارت نے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی، لیکن او آئی سی کے ردعمل میں چند مذمتی بیانات کے سوا کچھ نہیں ہو سکا۔ عملی اقدامات تو دور متعدد مسلم ممالک نے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مضبوط کر لیے۔ متحدہ عرب امارات نے نہ صرف بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے بلکہ وزیراعظم نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول اعزاز سے بھی نوازا۔ سعودی عرب، قطر اور دیگر خلیجی ممالک نے بھی بھارت کے ساتھ اپنی اقتصادی شراکت داری کو اولیت دی۔ اس رویے سے کشمیریوں کے دلوں میں ایک گہری مایوسی نے جنم لیا ہے۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عالمی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر عائشہ ندیم نے کہا کہ او آئی سی میں قیادت کا بحران ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے معاملے پر مشترکہ موقف تو موجود ہے لیکن اس کے پیچھے کوئی عملی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ ہر ملک اپنے قومی مفاد کو ترجیح دے رہا ہے اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک مغربی طاقتوں اور بھارت کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو کسی بھی اصولی مؤقف پر فوقیت دے رہے ہیں۔

ریٹائرڈ بریگیڈیئر آصف خرم کا کہنا تھا کہ فلسطین اور کشمیر دونوں معاملات میں او آئی سی کی بے عملی واضح ہے۔ جب 57 ممالک مل کر بھی محض بیانات پر اکتفا کریں اور کسی قسم کا اقتصادی یا سفارتی دباؤ نہ ڈالیں تو پھر دشمن کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی۔ ان کے بقول اگر او آئی سی واقعی مؤثر ہوتی تو اسرائیل اور بھارت کے خلاف مشترکہ اقتصادی اقدامات کرتی، لیکن ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔

کشمیری نژاد طالبہ آمنہ صدیقی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ وہ ہر سال او آئی سی کے اجلاسوں کی خبریں سنتی ہیں مگر زمینی حقائق میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی بچے آج بھی بمباری کا شکار ہیں اور کشمیری نوجوان آج بھی پیلٹ گنوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگر اتنے زیادہ مسلم ممالک مل کر بھی عالمی رائے عامہ کو متحرک نہیں کر سکتے تو پھر ان اجلاسوں کا مقصد کیا رہ جاتا ہے۔

مختلف ممالک کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنی خارجہ پالیسی کو معاشی مفادات کے تابع کر دیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہو یا بھارت کے ساتھ تجارتی تعاون، ان ممالک کے اقدامات نے او آئی سی کی اجتماعی حکمت عملی کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ اس کے برعکس ترکی اور ایران نے فلسطین کے معاملے پر نسبتاً سخت موقف اختیار کیا ہے، تاہم ان کے اپنے علاقائی تنازعات اور داخلی مسائل انہیں مسلم دنیا کی اجتماعی پالیسی کا مؤثر حصہ بننے سے روک دیتے ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں بھی ترکی، ملائیشیا اور ایران نے بھارت کے اقدامات کی کھل کر مخالفت کی، مگر خلیجی ممالک کی خاموشی نے کشمیریوں کی حمایت کے بیانیے کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔

مجموعی طور پر او آئی سی کا مؤقف غیر مؤثر ہونے کی بنیادی وجہ رکن ممالک کا اندرونی انتشار، قومی مفادات کو ترجیح دینا اور عملی اقدامات سے گریز ہے۔ فلسطین اور کشمیر جیسے دیرینہ تنازعات اب محض اجلاسوں اور قراردادوں کی حد تک زندہ ہیں، جب کہ زمینی صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ رہی۔ او آئی سی کو اپنی ساکھ بچانے کے لیے بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم اپنی معنویت اور وقعت مکمل طور پر کھو بیٹھے گی۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس