گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے، لاہور کی سڑک پر ایک مزدور سر پر اینٹوں کا گٹھا اٹھائے تیزی سے چل رہا ہے۔ اُس کے ماتھے سے پسینہ ٹپک رہا ہے، ہاتھ چھل گئے ہیں اور پیٹھ پسینے سے شرابور ہے۔ اُسے نہیں معلوم کہ آج یکم مئی ہے، عالمی یومِ مزدور۔ اُسے یہ بھی معلوم نہیں کہ کبھی شکاگو کے مزدوروں نے اُس جیسے انسانوں کے لیے جان دے دی تھی۔ وہ تو بس اتنا جانتا ہے کہ شام تک کام مکمل نہ ہوا تو دیہاڑی کٹ جائے گی۔
یہ کہانی صرف پاکستان کی نہیں، یہ حقیقت غزہ کی تباہ حال گلیوں میں ملبہ اٹھاتے فلسطینی مزدوروں کی بھی ہے اور سری نگر میں چپ چاپ سلائی کرتی کشمیری خواتین کی بھی، جن کے ہاتھوں میں ہنر ہے مگر زبان پر خوف کا پہرہ۔
دنیا مزدوروں کے حقوق کی بات کرتی ہے، عالمی تنظیمیں قراردادیں منظور کرتی ہیں، لیکن جب ظلم ریاستی پالیسی بن جائے، تو محنت کش صرف استحصال کا استعارہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ آج جب ہم یکم مئی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں صرف فیکٹریوں اور کھیتوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اُن خطوں کی بھی بات کرنی چاہیے جہاں انسانیت خود مزدور بن چکی ہے، جیسے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر۔
فلسطین میں مزدور صرف روزی روٹی کے لیے نہیں لڑ رہے، بلکہ اپنی شناخت اور زندگی کی بقا کے لیے بھی برسرِپیکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہوں یا انسانی حقوق کے عالمی معاہدے، اسرائیل کی جارحیت کے سامنے سب بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ غزہ کی گلیوں میں محنت کرنے والا مزدور اکثر یہ نہیں جانتا کہ کل اُس کی چھت سلامت ہوگی یا نہیں۔ فلسطینی محنت کش اسرائیلی ناکہ بندیوں، معاشی پابندیوں اور روزگار کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ اُنہیں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں اور اگر کوئی مزدوری کی نیت سے اسرائیل کی طرف جائے تو اُس کی تذلیل معمول بن چکی ہے۔

دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کا مزدور بھی خاموش غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہندوستان نے پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیریوں کو اُن کے تشخص اور معاشی خودمختاری سے محروم کر دیا۔ آج کشمیری نوجوان، جنہیں تعلیم کے بعد روزگار ملنا چاہیے تھا یا تو جیلوں میں ہیں یا خوف کی فضا میں معمولی تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں۔ خواتین ہنر مند ہونے کے باوجود معاشی نظام سے کٹی ہوئی ہیں۔ نہ بولنے کی آزادی ہے، نہ سفر کی۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اقوام متحدہ ان دونوں خطوں میں مزدوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر کیوں خاموش ہیں؟
امریکہ کی پالیسی واضح طور پر اسرائیل کے حق میں جھکاؤ رکھتی ہے۔ ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد اسرائیل کو دی جاتی ہے، جس سے غزہ کے عوام پر بمباری کی جاتی ہے۔ برطانیہ، جو انسانی حقوق کا علمبردار بننے کا دعویٰ کرتا ہے، تاریخی طور پر فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کا ایک اہم کردار رہا ہے۔
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو مغربی دنیا کی پالیسی یہاں بھی منافقت سے بھرپور ہے۔ ہندوستان کے ساتھ معاشی اور اسٹریٹجک تعلقات کی بنا پر عالمی طاقتیں مقبوضہ وادی میں ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کر لیتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں صرف فائلوں میں قید ہو چکی ہیں۔ پاکستان بار بار ان مسائل کو اجاگر کرتا ہے، لیکن عالمی سطح پر وہ آواز گونج نہیں بن پاتی جس کی ان محنت کشوں کو ضرورت ہے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین ندیم سلطانی کا کہنا تھا کہ “ہم یکم مئی کو مزدوروں کی عظمت کا دن تو مناتے ہیں، لیکن کیا کبھی ہم نے ان مزدوروں کے بارے میں سوچا جو عالمی سیاست کا ایندھن بنے ہوئے ہیں؟ فلسطین اور کشمیر کے محنت کشوں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اُنہیں انصاف کے عالمی نظام سے کاٹ دیا گیا ہے۔ جب مزدور کو ریاستی جبر کا سامنا ہو، تو اُس کا استحصال صرف معاشی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہوتا ہے۔“

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی کارکن شعیب عباس نے کہا کہ “میں نے کشمیری نوجوانوں کے ساتھ آن لائن ورکشاپس کی ہیں۔ وہ ذہین، باصلاحیت اور محنتی ہیں، لیکن اُن کے لیے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اُنہیں مزدوری کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت کے لیے بھی لڑنا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے یومِ مزدور پر اُن کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔“
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن عندلیب اسلم کا کہنا تھا “مجھے یہ بات ہمیشہ چبھتی ہے کہ مغربی میڈیا مزدوروں کے حق میں خوب خبریں چھاپتا ہے، مگر فلسطین اور کشمیر کے مزدوروں کی بات آئے تو مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ اگر یکم مئی کو ہم حقیقی معنوں میں عالمی مزدوروں کے لیے آواز اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن خطوں پر توجہ دینی ہوگی جہاں محنت کش صرف غربت نہیں بلکہ گولی، بارود اور پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔“
یکم مئی کو ہم جب بھی مزدوروں کا دن منائیں، تو یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ صرف مقامی فیکٹری کے مزدور ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص بھی اس دن کا اصل وارث ہے جو اپنے حق، اپنی زمین اور اپنی شناخت کے لیے لڑ رہا ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں مزدور محض اقتصادی غلام نہیں بلکہ وہ سیاسی قیدی بھی ہیں جنہیں عالمی ضمیر نے نظرانداز کر دیا ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے وقت ان دو خطوں کو نظر انداز نہ کریں۔ کیونکہ اگر ہم واقعی انصاف، امن اور برابری پر یقین رکھتے ہیں، تو یہ آواز صرف سڑکوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے، بلکہ عالمی ایوانوں تک پہنچنی چاہیے۔ یکم مئی محض تاریخ کا ایک دن نہیں، یہ ایک عہد ہے، کہ ہم ہر اُس انسان کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو اپنی محنت کے بل بوتے پر عزت کا حق دار ہے، چاہے وہ غزہ کے ملبے میں ہو یا کشمیر کی خاموش وادیوں میں۔