پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے امریکا نے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو یقینی بنائیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور انڈین وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے علیحدہ علیحدہ فون پر رابطہ کیا۔ دونوں رہنماؤں سے 22 اپریل کو انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد کی صورتحال پر گفتگو کی گئی، جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے تھے۔
انڈیا نے اس حملے کے بعد فوری طور پر پاکستان پر الزامات عائد کیے اور سخت اقدامات کا اعلان کیا، جن میں سفارتی تعلقات محدود کرنا، پاکستانی شہریوں کو ملک سے نکالنا، سندھ طاس معاہدے کی معطلی، واہگہ-اٹاری بارڈر اور دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی بندش شامل ہیں۔
جواب میں پاکستان نے بھی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے انڈین طیاروں کے لیے فضائی حدود بند کر دی۔ پاکستان نے واضح کیا کہ اگر انڈیا نے پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش کی تو اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا اور اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی وزیر خارجہ کو آگاہ کیا کہ پاکستان دہشتگردی کی ہر شکل کی مذمت کرتا ہے اور اس کے خلاف جنگ میں 90 ہزار جانیں قربان کر چکا ہے۔ پاکستان کو 152 ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے انڈیا کے حالیہ اقدامات کو اشتعال انگیز اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان سے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کو نقصان پہنچے گا، خاص طور پر داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسے گروپوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں۔
وزیراعظم نے انڈیا کی جانب سے پاکستان پر الزامات کو دوٹوک انداز میں مسترد کیا اور پہلگام واقعے کی شفاف، غیر جانبدار اور قابل اعتماد تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے امریکا سے درخواست کی کہ وہ انڈیا پر دباؤ ڈالے کہ وہ بیان بازی کم کرے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹمی بروس نے تصدیق کی کہ وزیر خارجہ روبیو نے حملے کی مذمت کی اور پاکستان سے تحقیقات میں تعاون کرنے کی اپیل کی۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر سے گفتگو میں روبیو نے دہشتگردی کے خلاف انڈیا سے تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور ساتھ ہی انڈیا کو پاکستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی ترغیب دی۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کو ہتھیار بنانے کی کوشش کی ہے، جو پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے لیے زندگی کی بنیاد ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس معاہدے میں کسی ایک فریق کو یکطرفہ طور پر معاہدے سے انحراف کی اجازت نہیں دی گئی۔

وزیراعظم نے امریکا کے ساتھ پاکستان کے 70 سالہ تعلقات کو سراہتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک انسداد دہشتگردی، معیشت، اور خاص طور پر معدنیات کے شعبے میں مزید تعاون کر سکتے ہیں۔ انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور امریکا کے ساتھ تمام باہمی دلچسپی کے شعبوں میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
امریکی جریدے نیوز ویک کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف دو ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ جوہری صلاحیت رکھنے والے ملکوں کے درمیان ایک خطرناک بحران ہے، جسے روکنے کے لیے امریکا کو سنجیدہ اور مستقل سفارتی اقدامات کرنے ہوں گے۔
ادھر انڈیا نے بدھ کو پاکستان کی ایئر لائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی، جس کا اطلاق 30 اپریل سے 23 مئی تک ہوگا۔ اگرچہ یہ پابندی پاکستان کی ایئر لائن انڈسٹری پر بڑے پیمانے پر اثر نہیں ڈالے گی، لیکن پی آئی اے نے انڈین فضائی حدود سے پروازیں نہ گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ تمام پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستان کے پاس قابل اعتماد انٹیلی جنس ہے کہ انڈیا آئندہ 24 سے 36 گھنٹوں میں کوئی فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔