ایک طرف حکومت ترقی کے دعوے کر رہی ہے تو دوسری طرف پاکستانی عوام روزمرہ کےاخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ملک ترقی کر رہا ہے تو اس سے عام پاکستانی کو کیا فائدہ ہو رہا ہے؟
گزشتہ ہفتےوفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 60 سالوں کی کم ترین سطح پر آگئی ہے، زرمبادلہ ذخائر دگنا اور روپے کی قدر میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت مہنگائی کی شرح صرف 0.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو گزشتہ چھ دہائیوں میں سب سے کم ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ جی ڈی پی گروتھ، ایکسپورٹس اور ریمیٹنسز میں بہتری آئی ہے،مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں پٹرول، بجلی، آٹا، چینی جیسی بنیادی اشیاء عوام کی پہنچ سے دور جاچکی ہیں، جب کہ اشرافیہ کو پیٹرول اور دیگر اشیاء کے مہنگے ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے معاشیات کے پروفیسر میاں ارسلان کا کہنا تھا کہ موجودہ ترقی کے ثمرات زیادہ تر اشرافیہ اور بڑے کاروباری طبقے تک محدود ہیں اور عام آدمی ان سے محروم نظر آتا ہے۔ ہم پچھلے دو بجٹس سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان میں اشرافیہ کو تو فائدہ ہو رہا ہے مگر عام آدمی کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔

حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبے جیسے میٹروبس اورنج ٹرین یا پھر سڑکوں کی تعمیر کامیابی کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں مگر اصل ترقی تو وہ ہوتی ہے جو ہر گھر تک پہنچے۔
میاں ارسلان کا کہنا ہے کہ حکومتی ترقی کے زیادہ تر اقدامات میکرو لیول پر ہوتے ہیں جیسے سڑکیں بنانا وغیرہ،جو کہ غریب عوام کے لیے بہترین سہولیات تو ضرور ہیں مگر جب تک روزگار، صحت، تعلیم اور بنیادی اشیائے ضروریہ سستے اور دستیاب نہیں ہوتے اور غریبی گھر گھر سے ختم نہیں ہوتی، تب تک ترقی کے یہ دعوے محض بیانات ہی رہیں گے۔
حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے اور مہنگائی پر قابوپالیا ہے۔ اگر مہنگائی کو کنٹرول کر لیا گیا ہے تو عام آدمی بنیادی ضروریات سے کیوں محروم ہے؟
پروفیسر میاں ارسلان کا کہنا تھاکہ مہنگائی کی شرح میں کمی کا مطلب ہوتا ہے کہ اشیاء کی قیمتیں پہلے جتنی تیزی سے نہیں بڑھ رہیں، لیکن پاکستان میں یہ قیمتیں پہلے سے ہی بہت بلند سطح پر موجود ہیں۔ تنخواہیں اور آمدن اس رفتار سے نہیں بڑھ رہیں۔ اس لیے مہنگائی کا کنٹرول بھی عام آدمی کی مشکلات کو کم نہیں کر پا رہا۔

بے روزگاری نےنوجوانوں میں نا امیدی پیدا کر دی ہے، مڈل کلاس لوگ مزیدغربت کا شکار ہوں رہے ہیں۔ اس حوالے سے معاشیات کے پروفیسر نے کہا ہے کہ افراطِ زر اور بے روزگاری نے مڈل کلاس طبقےکو نچلے طبقے کی طرف دھکیل دیا ہےاور غریب طبقہ غربت کی لکیر سے پہلے ہی نیچے جا چکا ہے۔ مڈل کلاس کسی بھی ملک کی معیشت کا ستون ہوتی ہے اور اس کا کمزور ہونا ایک خطرناک معاشی اشارہ ہے۔
حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں اضافہ ہو ا ہے اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔کیا واقعی ایسا ہے؟
اس حوالے سے پروفیسر میاں ارسلان کا کہنا ہے کہ ترقی کا مطلب صرف جی ڈی پی میں اضافہ ہونانہیں بلکہ ایک ایسے نظام کا ہونا ہے جس میں ہر شہری کو تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف تک مساوی رسائی حاصل ہو۔ ایک ایسی معیشت جہاں عام آدمی کی حالت بہتر ہو، مہنگائی قابو میں ہو اور سماجی انصاف میسر ہو، وہی حکومت ترقی یافتہ کہلانے کی حقدار ہے۔
پاکستان میں پالیسیاں اس طرح تشکیل دی جاتی ہیں جس سے عام آدمی کو فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ وسائل چند ہاتھوں میں مرکوز رہتے ہیں ۔
میاں ارسلان نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ ہماری معیشت ایک ایسے ماڈل پر چل رہی ہے جس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر اوپر ترقی ہو گی تو اس کا کچھ حصہ نیچے بھی پہنچے گا۔ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ وسائل اور فائدے صرف چند ہاتھوں میں مرکوز ہیں، جب کہ عام شہری محرومی کا شکار ہے۔

حکومت بیرونی قرضے کی وجہ سے آئی ایم ایف کی پالیسی کے مطابق بجٹ بناتی ہےاور آئی ایم ایف کی پالیسی کے مطابق ٹیکس بھی لگاتی ہے۔
پروفیسرمیاں ارسلان کا کہنا ہےکہ قرضوں کا بوجھ سب سے زیادہ عام آدمی پر پڑتا ہے۔ حکومت ان قرضوں کی واپسی کے لیے ٹیکس بڑھاتی ہے، سبسڈی کم کرتی ہے اور عوامی سہولیات مہنگی کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بجلی، گیس، آٹا، چینی، حتیٰ کہ دوائیں بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس ان قرضوں کا فائدہ کسی اور کو ہورہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی جائے تاکہ آٹا، چینی، دالیں، بجلی ، گیس سستی ہو اور نوجوانوں کے لیے چھوٹے کاروبار اور ہنر مندپروگرامز کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں ۔مزید یہ کہ بالواسطہ ٹیکس کم کیے جائیں اور اشرافیہ سے براہِ راست ٹیکس لیا جائے تاکہ بوجھ مساوی طور پر تقسیم ہو۔