ایئر انڈیا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پاکستان کی فضائی حدود پر عائد پابندی ایک سال تک برقرار رہی تو اسے تقریباً 600 ملین ڈالر (50 بلین انڈین روپے) کے اضافی اخراجات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایئر لائن نے انڈین حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس نقصان کی تلافی کے لیے سبسڈی فراہم کرے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ فضائی حدود کی بندش سے اس کی عالمی پروازیں شدید متاثر ہو رہی ہیں، جن میں ایندھن کے بڑھتے ہوئے اخراجات، طویل فلائٹ دورانیہ، اور اضافی عملے کی ضرورت شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ: پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کا محور آخر ہے کیا؟
یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مقبوضہ کشمیر میں حملے کے بعد پاکستان نے انڈین طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہے۔
ایئر انڈیا نے 27 اپریل کو سول ایویشن منسٹری کی وزارت کو ایک خط میں سبسڈی ماڈل کی تجویز دی، جس میں کہا گیا کہ جب تک حالات معمول پر نہیں آتے، حکومت کو متاثرہ پروازوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرنی چاہیے۔

فی الحال ایئر انڈیا نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ شہری سول ایویشن منسٹری کی وزارت نے بھی فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ ذرائع کے مطابق، حکومت اب ایئر لائن انڈسٹری کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے، جن میں متبادل راستے، ٹیکس میں چھوٹ، اور چینی حکام سے اوور فلائٹ کلیئرنس لینے کی کوشش شامل ہیں۔
یاد رہے کہ ایئر انڈیا، جس کا انڈیا میں 26.5 فیصد مارکیٹ شیئر ہے، یورپ، امریکا اور کینیڈا کے لیے بڑی تعداد میں پروازیں چلاتی ہے اور اکثر پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتی ہے۔
کمپنی پہلے ہی بوئنگ اور ایئربس کی جانب سے طیاروں کی تاخیر کا سامنا کر رہی ہے اور مالی سال 2023-2024 میں اسے $520 ملین کا خالص نقصان ہوا۔