لاہور کی پُرہجوم سڑکوں پر آج بھی دھویں اگلتی بسیں چل رہی ہیں، فضا میں آلودگی کی تہہ بدستور موجود ہے اور شہری سوال پوچھ رہے ہیں كہ “کہاں گئیں وہ 1500 الیکٹرک بسیں جن کا وعدہ کیا گیا تھا؟”
پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے کچھ عرصہ قبل ایک انقلابی قدم اٹھایا تھا، جسے صوبے کی ٹرانسپورٹ کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ قرار دیا گیا۔ یہ اعلان تھا کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں جدید، ماحول دوست 1500 الیکٹرک بسیں متعارف کروائی جائیں گی۔
اس منصوبے كا آغاز لاہور اور گوجرانوالہ سے ہونا تھا اور فیز ون میں 380 بسیں سڑکوں پر چلنے کو تیار تھیں۔ لیکن ان شہروں كی عوام كو دور دور تک كہیں بھی ان بسوں كو نام و نشان نہیں مل نظر آرہا۔
ابتدائی طور پر لاہور میں 27 الیکٹرک بسوں پر مشتمل پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز ہوا تھا جو گرین ٹاؤن سے ریلوے اسٹیشن تک محدود ہے۔ اس کے بعد باقی شہروں میں منصوبے کا پھیلاؤ ہونا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ پائلٹ ہی میں گم ہو گیا؟ یا پھر اس کے پہیے کسی بیوروکریٹک دلدل میں پھنس چكے ہیں؟
پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے پاكستان میٹرز سے خصوصی گفتگو كرتے ہوئے كہا كہ ”میں روزانہ یونیورسٹی بس سے آتا ہوں، جب سنا ہے کہ لاہور میں الیکٹرک بسیں آ رہی ہیں تو بہت خوشی ہوئی کیونکہ لاہور کی آلودگی روز بروز بڑھ رہی ہے اور موٹر سائیکل سواروں كے لیے بہت مشكل ہوتی ہے۔ لیکن آج تک یہ اچھی خبر بس خبروں میں سنی ہے ابھی تک دیکھا کچھ نہیں۔”

پنجاب كی وزیراعلیٰ مریم نواز نے حال ہی میں حکم دیا کہ لاہور میں ’ییلو لائن‘ الیکٹرک بس ٹریک کی منصوبہ بندی صرف 15 دن میں مکمل کی جائے۔ ساتھ ہی ایک جدید ٹرانسپورٹ کمانڈ اینڈ کنٹرول ٹاور قائم کرنے کی بھی منظوری دی گئی جو پورے نظام کی نگرانی کرے گا۔
اس كے علاوہ فیصل آباد میں “ریڈ” اور “اورنج” بس سروسز شروع کرنے کے بھی احکامات دیے گئے، لیکن جب تک بسیں سڑک پر نہ آئیں گی، یہ سب باتیں صرف الفاظ كی حد تك محدود رہ جاتی ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ سے ایڈوکیٹ احمد ادریس ڈوگر نے پاکستان میٹرز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” بسیں خریدنے اور چارجنگ انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بہت زیادہ وقت لگ سکتا ہے، اور اس میں کرپشن کے امکانات بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ پاکستان میں بڑے منصوبوں پر کرپشن کا ریکارڈ موجود ہے تو اس منصوبے کی شفافیت کی کوئی گارنٹی نہیں ہے “
حکومت کا کہنا ہے کہ الیکٹرک بسوں کا اجرا مرحلہ وار ہوگا تاکہ نظام کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔ لیکن مرحلہ وار طریقہ کار اکثر بیوروکریسی کی سست روی اور فنڈز کے غلط استعمال کی نذر ہونے خطرہ ہوتا ہے۔
اگر کوئی ٹائم لائن واضح نہ ہو تو یہ منصوبہ بھی دوسرے ’میگا پراجیکٹس‘ کی طرح فائلوں میں دفن ہو سکتا ہے۔
الیکٹرک بسیں چلانے کے لیے صرف بسیں ہی نہیں، بلکہ مؤثر چارجنگ اسٹیشنز بھی درکار ہیں۔ لاہور میں کچھ مقامات پر چارجنگ پوائنٹس کا منصوبہ ضرور بنایا گیا ہے لیکن دیگر شہروں میں انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اس منصوبے کے آگے ایک بڑی دیوار بن چکی ہے۔

الیکٹرک بسیں فیول کی بچت اور کم مینٹیننس کی بدولت طویل مدتی لحاظ سے سستی ہیں لیکن ان کی ابتدائی لاگت ہوشربا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ کیا حکومت اتنا بوجھ برداشت کر سکے گی؟ یا پھر جلد ہی یہ منصوبہ نجی سرمایہ کاری کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھائے گا؟
بلاشبہ، الیکٹرک بسیں زیرو ایمیشن ٹیکنالوجی رکھتی ہیں اور فضا کو آلودگی سے پاک کر سکتی ہیں، لیکن ان کے بیٹری سسٹم، پیداوار اور ری سائیکلنگ کے ماحولیاتی اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ ماحول دوست ہے مگر اس کے مکمل فائدے تب ہی سامنے آئیں گے جب مکمل سسٹم لاہور اور گوجرانوالہ كی سر زمین پر رواں نظر آے گا، نہ کہ صرف کا بیانات میں یا كاغزوں كی حد تك محدود رہے گا۔
عوامی سطح پر اس منصوبے کی پذیرائی ہوئی، لوگوں نے وزیراعلی مریم نواز كے اس اقدام كو بڑھ چڑھ كر سراہا مگر اب جب منصوبہ وقت پر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا تو عوام کی اُمیدیں مایوسی میں بدلنے لگی ہیں۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر سوالات اٹھنے لگے ہیں كہ کیا یہ منصوبہ بھی محض الیکشن اسٹنٹ تھا؟ یا واقعی اس کے پیچھے کوئی سنجیدہ سوچ تھی جس سے ملك كی عوام كا كچھ بھلا ہوسكے۔
الیکٹرک بسوں کا منصوبہ پاكستان میں ایک روشن مستقبل کی جھلک ضرور دیتا ہے مگر جب بجٹ تو منظور ہو جائے تو پچھلی حكومتوں كی طرح منصوبہ غائب ہو جاتا ہے، تو یہی وہ بات ہے جو عوام كے زہنوں میں شکوک و شبہات پیدا كرتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس منصوبے کی رفتار بڑھائے بلکہ عوام کو شفافیت کے ساتھ باخبر رکھے۔ کیونکہ جب وعدے بار بار ادھورے رہیں تو اعتماد کا سفر بہت دشوار ہو جاتا ہے۔
بلآخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ بجٹ منظور ہو گیا، منصوبہ لاپتہ ہے تو کیا واقعی الیکٹرک بسیں کہیں چھپ گئیں؟ یا ہمیں جلد ہی سڑکوں پر ان کی گونج سنائی دے گی؟