سوشل میڈیا نے اکیسویں صدی میں انسان کی زندگی کو جس قدر متاثر کیا ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ معلومات تک فوری رسائی، دنیا کے ہر کونے میں رابطہ، اظہارِ رائے کی آزادی اور خبروں کی ترسیل نے عوام کو طاقتور بنایا ہے لیکن اسی سوشل میڈیا نے فیک نیوز یا جھوٹی خبروں کے ذریعے معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی ڈھانچوں کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے، وہ بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔ آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہاں خبر کی صداقت سے زیادہ اس کی رفتار اہم ہو چکی ہے۔ ہر شخص رپورٹر ہے، ہر موبائل چینل ہے اور ہر پلیٹ فارم عدالت بن چکا ہے۔ ایسے ماحول میں فیک نیوز کی روک تھام محض ایک خواہش نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔
فیک نیوز کی اصطلاح بظاہر سادہ معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات نہایت پیچیدہ اور سنگین ہیں۔ یہ جھوٹی خبریں محض افواہوں کی شکل میں نہیں ہوتیں بلکہ ان کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ بندی، سیاسی مفادات، نفرت انگیزی، پروپیگنڈہ اور بعض اوقات غیر ملکی ایجنڈے کارفرما ہوتے ہیں۔ فیک نیوز نہ صرف کسی شخص کی ساکھ برباد کر سکتی ہے بلکہ یہ معاشرے میں انتشار، مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور یہاں تک کہ فسادات کو جنم دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں شرحِ خواندگی محدود اور تنقیدی سوچ کا فقدان ہے، وہاں فیک نیوز کا پھیلاؤ ایک بڑے المیے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی روک تھام کے لیے سب سے پہلا قدم عوامی شعور بیدار کرنا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قانون سازی، ٹیکنالوجی اور ریاستی اقدامات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن جب تک عوام خود اپنے ہاتھ میں موبائل اٹھا کر ایک خبر کو پرکھنے، جانچنے اور سمجھنے کی عادت نہیں اپناتے، تب تک کوئی بھی قانون یا ٹیکنالوجی اس وبا کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب میں میڈیا لٹریسی شامل کرنی ہوگی تاکہ بچے ابتدا سے ہی یہ سیکھیں کہ سوشل میڈیا پر موجود ہر چیز سچ نہیں ہوتی۔ انہیں یہ سکھانا ہوگا کہ کوئی بھی ویڈیو، تصویر یا تحریر شیئر کرنے سے قبل اس کے ماخذ، سیاق و سباق اور ممکنہ نتائج کو سمجھنا ضروری ہے۔ دوسرا اہم قدم ریاستی سطح پر ایسی پالیسیوں کا نفاذ ہے جو فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ہوں لیکن ان پالیسیوں کو آزادیِ اظہار پر قدغن کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ پاکستان میں کئی بار فیک نیوز کی آڑ میں صحافیوں کی زبان بندی کی گئی ہے، جس سے اصل مسئلہ دب گیا اور نئی الجھنیں جنم لینے لگیں۔ہمیں ایک متوازن اور شفاف نظام درکار ہے، جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قانون کے دائرے میں لا کر ان پر لازم کیا جائے کہ وہ جھوٹی خبروں کی شناخت، تردید اور روک تھام کے لیے الگورتھمز، فیکٹ چیکنگ ٹیمیں اور ریئل ٹائم رپورٹنگ میکانزم متعارف کرائیں۔ یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر(ایکس) اور انسٹاگرام جیسے بڑے پلیٹ فارمز پر موجود مواد کی نگرانی کا کوئی بین الاقوامی ضابطہ ہونا چاہیے، جو صرف حکومتوں کی ہی نہیں بلکہ صارفین کی بھی نمائندگی کرتا ہو۔
تیسرا اہم محاذ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ جس طرح فیک نیوز کی تخلیق میں مصنوعی ذہانت ،ایڈیٹنگ ٹولز، ڈیپ فیک اور بوٹس کا استعمال بڑھ رہا ہے، ویسے ہی ان کے تدارک کے لیے بھی جدید سافٹ ویئر اور الگورتھمز تیار کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں کئی ادارے اور تنظیمیں ایسی ایپلیکیشنز پر کام کر رہے ہیں جو تصویر یا ویڈیو کی اصلیت کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان ٹولز کو نہ صرف صحافتی اداروں بلکہ عام عوام تک بھی پہنچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے ڈیجیٹل لیبز قائم کیے جانے چاہئیں جہاں کسی خبر کی صداقت کو جانچنے کی سہولت دستیاب ہو تاکہ ایک عام شہری بھی اپنی تسلی کے بعد خبر کو آگے پھیلائے۔
صحافت کا کردار اس ضمن میں نہایت اہم ہے۔ آج کا صحافی محض خبر رساں نہیں بلکہ رہنمائی کرنے والا بھی ہونا چاہیے۔ اگر میڈیا ہاؤسز، چینلز اور اخبارات فیک نیوز کی شناخت اور اس کی تردید کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، تو نہ صرف ان کی ساکھ بڑھے گی بلکہ عوامی اعتماد بھی بحال ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض صحافتی ادارے خود فیک نیوز کے پھیلاؤ میں شریک ہو چکے ہیں، جو یا تو ریٹنگ کی دوڑ میں اندھے ہو چکے ہیں یا مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں غیر جانبدار، تحقیقی اور ذمہ دار صحافت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
فیک نیوز کا ایک اہم پہلو وہ ذہنی رجحانات ہیں جو انسان کو صرف اپنی مرضی کی بات سننے اور پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کے الگورتھمز اکثر صارفین کو انہی خیالات اور نظریات پر مبنی مواد دکھاتے ہیں جن سے وہ متفق ہوتے ہیں، جسے “فِلٹر ببل” کہا جاتا ہے۔ اس رجحان سے انسان ایک محدود دائرے میں قید ہو جاتا ہے، جہاں اختلافِ رائے، تنقید اور تجزیہ ناپید ہوتا ہے۔ یہ رجحان فیک نیوز کو مزید طاقت دیتا ہے، کیونکہ ہر جھوٹی خبر کسی نہ کسی “ایکو چیمبر”میں سچ سمجھی جاتی ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم خود کو مختلف آراء سننے، پڑھنے اور سمجھنے کے لیے تیار کریں۔ تحقیق، دلیل اور کھلے ذہن سے گفتگو کا کلچر فروغ پائے گا تو فیک نیوز کی جڑیں خود بخود کمزور پڑیں گی۔
ایک اور قابلِ غور پہلو ان اثرانداز افراد کا ہے جو لاکھوں فالوورز رکھتے ہیں اور ان کی بات کو بغیر تحقیق سچ مانا جاتا ہے۔ جب کوئی مشہور شخصیت کسی جھوٹی خبر کو پھیلاتی ہے تو اس کے اثرات بہت وسیع ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد کو اخلاقی اور قانونی دونوں حوالوں سے جوابدہ بنایا جائے انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ ان کے الفاظ صرف رائے نہیں بلکہ ایک بڑی ذمہ داری ہیں۔ کچھ ممالک میں ایسے انفلوئنسرز کے لیے ضابطہ اخلاق متعارف کروایا گیا ہے، جس پر عملدرآمد سے فیک نیوز کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے۔
فیک نیوز کا خاتمہ ایک دن یا ایک اقدام سے ممکن نہیں، یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جس میں ریاست،میڈیا، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، تعلیمی ادارے اور عام شہری، سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جہاں سچائی،تحقیق اور احتساب کو اہمیت دی جائے اور جھوٹ،سنسنی اور مفاد پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ فیک نیوز صرف خبر نہیں، یہ ایک ذہنی زہر ہے جو آہستہ آہستہ ہمارے سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ اس زہر کا علاج صرف قانون یا ٹیکنالوجی سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے سچ بولنے،سچ سننے اور سچ پھیلانے کا حوصلہ چاہیے اور یہ حوصلہ ہم سب کو مل کر پیدا کرنا ہو گا، ورنہ سوشل میڈیا پر جھوٹ کا سیلاب ہمیں سچ کے آخری کنارے سے بھی بہا لے جائے گا۔