دنیا کی دو بڑی معیشتوں میں چین اور امریکا کا نام سرِفہرست آتا ہے۔ ان کے درمیان جاری تجارتی کشمکش نے عالمی اقتصادی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
صدارت کا حلف لینے کے کچھ دن بعد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام چھوٹے بڑے ممالک پر ٹیرف عائد کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ امریکہ کو بہت لوٹ لیا گیا ہے، اب بس اور اب سب ممالک کو ٹیرف دینا پڑیں گے۔
امریکا کی جانب سے لگائے گئے ٹیرف کے جواب میں اکثر ممالک کی جانب سے جوابی ٹیرف عائد کردیے گئے، جس نے خطے میں ایک نئی کشمکش کو جنم دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد چین نے بھی جوابی اقدامات کیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ شدت اختیار کر گئی۔
درجنوں ممالک پر لگائے جانے والے اضافی ٹیرف کو 90 دن کے لیے روک دیا گیالیکن آئی فون سے لے کر بچوں کے کھلونے بنانے والے چین پر 125 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا اور جواباً چین نے بھی امریکی مصنوعات پر 125 فیصد ٹیرف عائد کردیا۔
پاکستان ان دو طاقتوں کی ہمیشہ سے ہی ترجیحات میں رہا ہے، ان طاقتوں کے درمیان جاری یہ جنگ پاکستان کے لیے فوائد اور مشکلات دونوں ایک ساتھ لے کر آئی ہے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر شفاقت علی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ نے عالمی سپلائی چینز کو متاثر کیا ہے جس کا بالواسطہ اثر پاکستان پر بھی پڑا ہے۔ پاکستان کو خاص طور پر ٹیکسٹائل اور زراعت کے شعبوں میں کچھ مواقع ملے لیکن پالیسیوں کی عدم تسلسل اور بھاری لاگت کا مقابلہ نہ کرنے کے باعث فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
چینی مصنوعات پر امریکی ٹیرف کے باعث امریکی خریدار متبادل سپلائرز کی تلاش میں ہیں، جس سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ممکن ہے۔
چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چین نے پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جس کا مقصد بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور توانائی کے منصوبوں کی تکمیل ہے۔ گوادر پورٹ، موٹرویز اور صنعتی زونز جیسے منصوبے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا ہے کہ سی پیک کی بدولت پاکستان کی اقتصادی اور جغرافیائی قربت چین سے بڑھ رہی ہے جو امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ایک توازن کا تقاضا کرتی ہے۔ طویل مدتی اثرات میں پاکستان کو محتاط سفارتی حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ کسی ایک بلاک پر انحصار نہ ہو۔
اگرچہ تجارتی جنگ نے پاکستان کے لیے نئے مواقع پیدا کیے ہیں، لیکن اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق عالمی تجارتی کشمکش کے باعث ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے، جو پاکستان جیسے ممالک کے لیے تشویشناک ہے۔
امریکا اور چین کی جاری اس جنگ کی وجہ سے عموماً یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پاکستان کو امریکی منڈیوں میں چینی مصنوعات کی جگہ لینے کا یہ ایک موقع ہے؟
اس حوالے سے ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا ہے کہ یہ موقع وقتی طور پر تو موجود ہے لیکن اس سے دیرپا فائدہ صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب پاکستان اپنی مصنوعات کے معیار اور ترسیل کی صلاحیت میں بہتری لائے۔ موجودہ انفراسٹرکچر اور پالیسی رکاوٹیں اس موقع کو مکمل طور پر استعمال کرنے نہیں دیتیں۔
اس کے علاوہ یہ کہ پاکستان کی معیشت پر چین کے بڑھتے ہوئے انحصار نے بین الاقوامی قرض دہندگان کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان کا کل قرضہ 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جس میں سے 30 فیصد چین کا ہے۔
ماہرِ معاشیات نے کہا ہے کہ اگر سرمایہ کاری شفاف شرائط پر ہو اور مقامی معیشت کو مضبوط کرے تو یہ فائدہ مند ہے۔ لیکن قرضوں کی غیر شفافیت اور ریونیو شیئرنگ میں عدم توازن پاکستان کی معاشی خودمختاری کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اگر متبادل مالی ذرائع نہ ہوں تو یہ خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو 2021 میں 4 فیصد سے بڑھ کر 2024 میں 14 فیصد ہو گیا ہے۔ یہ ترقی زیادہ تر امیر طبقے اور کاروباری اداروں کی جانب سے سستی چینی سولر پینلز کی تنصیب کے باعث ممکن ہوئی ہے۔
مگردرمیانے طبقے اور کرایہ داروں کے لیے یہ ٹیکنالوجی اب بھی دور ازکار ہے، جس سے معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو کا کہنا تھا کہ شمسی توانائی کے شعبے میں ترقی کے باوجود درمیانے طبقے کی شمولیت میں رکاوٹ کی بڑی وجوہات میں زیادہ ابتدائی لاگت، حکومتی سبسڈی یا آسان فنانسنگ کی کمی، تکنیکی آگاہی کا فقدان، ناقص سروسز پر عدم اعتماد اور کرایہ داروں کے لیے تنصیب میں مشکلات شامل ہیں۔
پاکستان نے 2024 میں آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج حاصل کیا، جس سے معیشت کو سہارا ملا۔ اس کے علاوہ سعودی فنڈ برائے ترقی کے ساتھ 1.2 ارب ڈالر کے تیل کی ادائیگی مؤخر کرنے کا معاہدہ بھی کیا گیا، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی۔
ڈاکٹر شفاقت علی کے مطابق آئی ایم ایف پروگرامز اکثر سخت شرائط سے مشروط ہوتے ہیں، جس سے پاکستان کی اقتصادی خودمختاری محدود ہو جاتی ہے۔ فیصلوں میں آزادی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ملکی آمدنی میں اضافہ ہو اور بیرونی قرضوں پر انحصارکم کیا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو خطرہ مزید بڑھے گا۔
امریکا اور چین کے درمیان جاری اس ٹیرف جنگ میں پاکستانی حلقوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ عالمی تجارتی عدم استحکام کے پیش نظر پاکستان کو اپنی برآمدی حکمتِ عملی میں کیا تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے؟
ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو کا کہنا ہے کہ پاکستان کو روایتی برآمدات سے ہٹ کر ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمدات بڑھانی چاہئیں۔ اس کے ساتھ نئی عالمی منڈیوں میں رسائی اور مقامی صنعتوں کی مسابقت بڑھانا بھی ضروری ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے تناظر میں پاکستان کو محتاط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ برآمدات میں اضافہ، صنعتی ترقی اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے ذریعے پاکستان اپنی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔ تاہم، بین الاقوامی تعلقات میں توازن برقرار رکھنا اور قرضوں کے بوجھ کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔
تقویم چانڈیو نے پاکستان میٹرز کو بتایا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان جاری معاشی سرد جنگ دنیا کو دو بلاکس میں تقسیم کر رہی ہے، جس سے ایک متبادل عالمی اقتصادی نظام کی بنیاد رکھی جا رہی ہے جہاں ڈالر کی اجارہ داری چیلنج ہو رہی ہے اور نئی مالیاتی اتحاد ابھر رہے ہیں۔
امریکا اور چین کے درمیان جاری اس جنگ نے واضح طور پر تو نہیں مگر دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، جہاں ٹرمپ کے حامی اسے، جب کہ چین کے حامی چین کو سپورٹ کررہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہے کہ وہ کس ملک کا ساتھ دے۔
ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان کو دونوں ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھنا انتہائی مشکل ہے۔ اس وقت ضروری یہی ہے کہ پاکستان واضح ترجیحات اور شفاف خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے دونوں ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات کے لیے اقدامات کرے۔
عالمی تجارتی جنگ نے پاکستان کے لیے نئے مواقع اور چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ اگر پاکستان دانشمندی سے ان مواقع سے فائدہ اٹھائے اور چیلنجز کا مقابلہ کرے، تو یہ صورتحال ملک کی معیشت کے لیے ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کس طرح اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے کس طرح کی خارجہ پالیسی اپناتا ہے؟