Follw Us on:

جنوبی ایشیا میں جنگ کے منڈلاتے بادل، ‘آپریشن سندور’ یا ایک سیاسی چال

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد

6 مئی 2025 کو جنوبی ایشیا کی تاریخ نے ایک اور خون آلود باب کا آغاز دیکھا۔انڈیا نے ایک غیر متوقع اور خطرناک کارروائی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے  پاکستان کے اندر نو مقامات پر میزائل حملے کیےہیں، جنہیں ‘آپریشن سندور’ کا نام دیا گیا۔ ان حملوں کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی قرار دیا گیا، مگر پاکستان نے انہیں اپنی خودمختاری پر حملہ اور اعلانِ جنگ قرار دیا۔

ایک ایسے خطے میں، جہاں دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں، یہ کارروائی نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے۔

انڈیا کے مطابق یہ کارروائیاں 22 اپریل کو انڈین کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے جواب میں کی گئیں، جس میں 26 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ انڈین وزارت دفاع کے مطابق نشانہ صرف شدت پسند تنظیمیں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کے ٹھکانے تھے۔

پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بہاولپور، مریدکے، سیالکوٹ اور شکرگڑھ، جب کہ آزاد  کشمیر میں کوٹلی اور مظفرآباد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دفتر خارجہ نے اس کارروائی کو کھلی جارحیت قرار دیا اور کہا کہ “پاکستان اس حملے کا مؤثر جواب دے گا۔”

وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ رات انڈیا نے پوری تیاری کے ساتھ حملہ کیا، جس میں ان کے 80 طیاروں نے حصہ لیا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’ہماری افواج 24 گھنٹے تیار تھی کہ کب دشمن کے جہاز اڑیں اور کب ہم انہیں اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں۔ ہم نے احتیاط سے کام نہ لیا ہوتا تو انڈیا کے پانچ کے بجائے دس طیارے گرے ہوتے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ’جو کہتے تھے کہ پاکستان روایتی جنگ میں پیچھے ہے انھیں کل رات خبر ہو گئی۔’

عالمی تعلقات کے ماہر بلال افتخار نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا ایک عرصے سے اپنی اندرونی سیاسی ناکامیوں کو ‘قومی سلامتی’ کے نام پر بیرونی دشمن کے خلاف کارروائیوں سے چھپاتا آیا ہے۔ 2025 کے انڈین انتخابات سر پر ہیں اور مودی حکومت کو اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کا سامنا ہے۔ ایسے میں ایک محدود جنگ یا حملہ، اندرونی حمایت حاصل کرنے کا آزمودہ حربہ ہے، مگر اس بار انہوں نے خطرناک حد پار کی ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات کی تاریخ جنگ، دشمنی اور کشیدگی سے عبارت ہے۔ 1948، 1965اور 1971 کی جنگیں اور 1999 کی کارگل جنگ، ان دونوں ممالک کے درمیان خون آلود تصادم کی مثالیں ہیں۔ ان میں سے بیشتر جھڑپیں کشمیر کے متنازع خطے پر ہوئیں۔ 1998میں دونوں ممالک نے جوہری تجربے کیے اور ایٹمی کلب کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد سے ہر فوجی جھڑپ کے ساتھ دنیا یہ سوال پوچھتی رہی ہے: کیا یہ ٹکراو ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے؟

آپریشن سندور کی خبریں سامنے آتے ہی  دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے دونوں ممالک سے تحمل کی اپیل کی۔ امریکا، چین، روس اور یورپی یونین نے فوری جنگ بندی اور مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔

اسلام آباد اور دہلی دونوں میں افواج کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے اور سفارتی چینلز پر رابطے منجمد نظر آتے ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک ‘پوسچرنگ’ کے مرحلے میں ہیں، یعنی ایک دوسرے کو طاقت دکھا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، مگر ایٹمی ہتھیاروں کے ہوتے ہوئے، یہ کھیل خطرناک حد تک مہلک بن سکتا ہے۔

انڈیا سرکاری طور پر ‘نو فرسٹ یوز’ (پہلے استعمال نہ کرنے) کی پالیسی رکھتا ہے،  لیکن حالیہ برسوں میں انڈین دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے اندر اس پالیسی پر نظرثانی کی باتیں ہو رہی ہیں، خاص طور پر جب روایتی جنگ کا پلڑا پاکستان کے حق میں جھکتا نظر آئے۔

یہ پالیسیاں کسی حد تک روک تھام کا کام دیتی ہیں، مگر سوال یہ ہےکہ اگر زمینی حقیقت بدل جائے، جذبات غالب آ جائیں، یا غلطی ہو جائے تو کیا یہ پالیسیاں بھی باقی رہیں گی؟

تجزیہ کار اس وقت تین ممکنہ منظرناموں پر غور کر رہے ہیں، جس میں پہلا محدود روایتی جنگ ہےیعنی کہ  دونوں ممالک فضائی اور زمینی جھڑپوں تک محدود رہیں اور جوہری ہتھیاروں کا استعمال نہ ہو،لیکن اس میں بھی ہزاروں جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔

دوسرامنظرنامہ حادثاتی ایٹمی جنگ ہے یعنی کہ ایک ریڈار کی غلطی، ایک میزائل کا غلط پیغام، ایک جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ، پوری دنیا کو تباہی کی طرف لے جا سکتا ہے، جب کہ تیسرا منظرنامہ مکمل ایٹمی تبادلہ ہے یعنی کہ اگر دونوں ممالک نے جوہری ہتھیار استعمال کر لیے، تو نہ صرف دہلی، اسلام آباد، لاہور اور ممبئی تباہ ہوں گے بلکہ دنیا بھر میں جوہری بارش، قحط اور عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی جیسے مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں عوامی سطح پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور حکومت سفارتی حمایت حاصل کرنے کے لیے متحرک ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تمام کوششیں وقت پر ہوں گی یا اس وقت ہوں گی جب بہت دیر ہو چکی ہو گی؟ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پاکستان اور انڈیادونوں اپنے اپنے انداز میں مضبوط اور خودمختار ممالک ہیں، مگر ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں طاقت کا مظاہرہ صرف لمحاتی سکون دیتا ہےمگر انجام تباہی کی شکل میں نکلتا ہے۔

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس