تنازعات میں گھرے ڈونلڈ ٹرمپ ایسے وقت میں دوسری بار امریکا کے صدرکا حلف اٹھا رہے ہیں جب لاس اینجلس جل رہا ہے،مشرق وسطیٰ میں جنگ کا ماحول ہے،ڈونلڈ ٹرمپ صدرتوامریکا کےبنے ہیں مگر خوشیاں پاکستان میں زیادہ منائی جارہی ہیں،ٹرمپ کی جیت کو’عمران خان‘کی جیت قراردیا جارہا ہے،جب عمران خان کوعدالت سے’کرپٹ پریکٹسز’پر14 سال قید کی سزا سنائی جاچکی ہے،ایسے میں ٹرمپ حکومت پاکستان پر کیسے اثرانداز ہوسکتے ہیں؟
اب سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا کسی ایک ملک کی حکومت تبدیل ہونے سے دوسرے ممالک کے مستقبل کے بارےمیں پیشن گوئی کی جا سکتی ہے؟
پاکستان اورامریکا کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک دونوں ممالک کے درمیان مختلف نوعیت کے تعلقات رہے ہیں۔ امریکا میں کسی بھی رہنما کا منتحب ہونا، پاکستان کے امریکا سے تعلقات پراثرانداز ہوتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے غیر روایتی انداز کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اپنے پہلے دورِ حکومت میں ٹرمپ نےپاکستان کے حوالے سےملے جلے تاثرات کا اظہار کیا۔ جنوری 2018 میں ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں پاکستان پہ دہشت گردی کی حمایت کرنے کے سنگین الزامات لگائے۔ انہوں نے لکھا کہ “امریکا نے پچھلے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 بلین ڈالر امداد دی ہے اور بدلے میں ہمیں پاکستان کی طرف سے دھوکا دہی ملی ہے۔ پاکستان دہشتگردوں کے لیے محفوظ جنت بن چکا ہے۔‘‘
اگلے ہی برس پاکستانی وزیراعظم عمران خاان نے امریکا کا دورہ کیا جہاں ان کی ملاقات ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ہوئی۔

،ساتھ ہی امریکا اور پاکستان کے درمیان تعاون کو مزید مستحکم کرنے کا پیغام دیا۔ اس کے علاوہ کشمیر، افغانستان، اور دیگر شعبوں میں ٹرمپ نے پاکستان سے تعاون کرنے کا کہا۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ” وہ جنگوں کو ختم کرنے آئے ہیں”، اس تناظر میں اگر پاکستان امریکا کی مدد کر سکے تو ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان میں دلچسبی بڑھ سکتی ہے۔
ماہر معاشیات اور سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے ’انڈیپنڈنٹ اردو‘ کو بتایاکہ’ پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کو ہماری ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں امریکا کی ضرورت ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ بارود کی جنگ کے خلاف ہیں لیکن ٹریڈ وار کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسی میں چین اور ایران کو مالی نقصان پہنچانا سرفہرست ہے۔اگر پاکستان اس حوالے سے کچھ مدد کر سکا تو امریکی سپورٹ پاکستان کو مل سکتی ہے، بصورت دیگر ٹرمپ پاکستان میں دلچسپی نہیں لیں گے۔
ماضی میں دو مرتبہ امریکا میں پاکستانی سفیر رہنے والی ملیحہ لودھی نے بی بی سی اردو کوبتایا کہ پاکستان ابھی امریکا کے ریڈار پر نہیں ہے۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کے لیے پاکستان زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ پاکستان اسی صورت امریکا کی سپورٹ حاصل کر سکتا ہے جب وہ امریکہ کے مفادات حاصل کرنے میں امریکہ کی مدد کر سکے۔
یاد رہے کہ امریکا کا شمار پاکستان کی سب سے زیادہ امداد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ امریکا اور روس کی سرد جنگ سے لے کر موجودہ دہشت گردی کے خاتمے تک ، امریکا نے اربوں ڈالر پاکستان کو دیے ہیں۔ جن کو پاکستانی حکومت نے مختلف اقدامات کے لیے استعمال کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کا بوجھ اور موجودہ معاشی صورتحال کودیکھتے ہوئے ، پاکستان کو امریکہ کے تعاون اور امداد کی سخت ضرورت ہے۔
حالیہ دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی رچرڈ گرینل کے عمران خان کے متعلق کافی بیانات سامنے آرہے ہیں ۔25 دسمبر 2024 کو انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ عمران خان کو رہا کیا جائے ان پر ویسے ہی الزامات ہیں جیسے ڈونلڈ ٹرمپ پر تھے۔ ایسے بیانات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ سے پاکستا ن پہ دباؤ ڈالا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کوعمران خان کی رہائی کرنا پڑے گی۔
یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب لاہور کے شعبہ عالمی تعلقات اور سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر عرفان علی فانی کا’پاکستان میٹر‘ سے گفتگومیں کہنا تھاکہ ڈونلڈ ٹرمپ بالکل بھی ایک روایتی سیاست دان نہیں ہے،وہ پوری دنیا میں جہاں بھی طاقت ہوگی اسی کے ساتھ کھڑا نظر آئے گا۔
اس وقت یوکرین اور روس کی جنگ ہو رہی ہے،ٹرمپ اگرکوئی قدم اٹھائے گا تو وہ پیوٹن کے حق میں ہوگا۔ اسی طرح اگر فلسطین میں کچھ ہوگا تو وہ اسرائیل کے حق میں ہوگا۔
ٹرمپ کی نظر میں پاکستان کی اہمیت کیا ہوگی؟پروفیسر عرفان علی فانی کہتے ہیں کہ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو پاکستان میں جس شخص کو ٹرمپ جانتا ہے یا جس کی اہمیت ہے وہ شخص عمران خان ہے اس کی وجہ عمران خان کا دورہِ امریکا تھا جہاں ٹرمپ نے نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا۔ ٹرمپ ریاستی اداروں کو لے کر چلنے والا بندہ نہیں وہ ہمیشہ شخصیات کے ساتھ رہنے والا بندہ ہے اس کی جھلک ہم کینیڈا،میکسیکو، گرین لینڈ اور پاناما کینال کے معاملات میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ٹرمپ کی بنائی گئی پالیسیوں کے حوالے سے اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ ٹرمپ پالیسی ہمیشہ شخصیت کے گرد گھومتی ہے اور کاروباری منافع کے لئے ہوتی ہے۔
پاکستان کی امریکا کے حوالے سے اہمیت کو لے کر پروفیسر عرفان فانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ جیوپالیٹیکل اہمیت کچھ خاص نہیں ہے۔پاکستان کی اہمیت اجاگر ہونے کی ایک ہی صورت ہےاور وہ یہ ہے کہ اگر ایران میں اسرائیل اور امریکہ مل کر حملہ کرتے ہیں تو تب پاکستان کو ترجیح دی جائے گی۔
جس طرح پاکستان نے افغانستان جنگ میں امریکا کی ضرورتوں کو پورا کیا اسی طرح ادھر بھی کرنے کے لئے پاکستان کو اہمیت ملےگی۔ افغانستان میں امریکا کی مدد سے امریکا کے ساتھ تعلقات تو بہتر ہوگئے مگر دہشت گردی کی صورت میں اس کا خمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔
ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کی مشکلات کولےکراسسٹنٹ پروفیسر نے کہاکہ اس وقت جتنے بھی لوگ ٹرمپ کیبینٹ میں آئےہیں وہ ماضی میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آفیشلی عمران خان کے حق میں بیان دےچکے ہیں اور وہ پرسنلی عمران خان کو جانتے ہیں۔

پچھلے دنوں گرینل کی جانب سے فری عمران خان کا جو ٹوئٹر پرسلسلہ چلا ہے اور مختلف نیوز چینلز پر آکر فری عمران خان کا جو سلوگن استعمال کیاگیا ہے اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں آہستہ آہستہ عمران خان اور پی ٹی آئی کےلئے آسانیاں پیداہوجائیں گی۔
پروفیسر عرفان فانی نے کہا کہ ٹرمپ ایک غیرمتوقع شخصیت کا حامل ہیں اوراچانک فیصلے لےلیتے ہیں۔ اب ہوسکتا ہے کہ کسی دن وہ عمران خان کے حق میں کوئی ٹوئٹ کردیں تو پی ٹی آئی کی مشکلات کم ہوجائیں گی لیکن ایسا ہونے میں کچھ وقت ضرورلگے گا۔
دوسری جانب عوام کے جذبات عمران خان سے جڑے ہوئےہیں اور موجودہ حکومت عوام کے جذبات کوجوڑنے میں ناکام رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو مکمل نیچے لانے کے باوجود عوام کی اکثریت پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ اب اگر امریکا کی طرف سے کوئی بھی فیصلہ نہیں آتا عمران خان کے حق میں تب بھی واضح آثار ہیں کے عمران خان کے لئےآسانیاں آہستہ آہستہ پیدا ہوں گی اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریتی عوام کی ہمدردیاں ابھی بھی عمران خان کے ساتھ ہیں۔
بہرحال، ٹرمپ کا دوسرا دورِ حکومت پاکستان کے تناظر میں کتنا کامیاب رہے گا کہ یہ تووقت بتائے گاتا ہم قوی امکان یہی ہے کہ اگر دونوں ممالک کی حکومتیں مل کر بات کریں تو پاکستان اور امریکا کے درمیان حالات معمول پہ آسکتے ہیں۔