📢 تازہ ترین اپ ڈیٹس
صدر ٹرمپ نے شام کے صدر سے ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری بات چیت مثبت رہی اور کئی اہم معاملات پر پیش رفت ہوئی ہے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے اپنے دورے کو نہایت اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ خلیجی ممالک سے ہمارے تعلقات جتنے بہتر ہوں گے، اتنا ہی اسرائیل کے لیے بھی یہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔ خطے میں استحکام کے لیے باہمی شراکت داری ناگزیر ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خلیجی دورے کے دوران قطر کے شاہی محل پہنچے، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا، شاہی محل آمد پر قطری افواج کی جانب سے صدر ٹرمپ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیج تعاون کونسل (GCC) سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "خلیجی ممالک نے ہمیشہ امن کے لیے کام کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ممالک کے درمیان پراکسی وارز (بالواسطہ جنگوں) کا خاتمہ ہو۔ ایران پر عائد تمام پابندیاں اٹھائی جائیں گی، تاہم ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم ایران سے نئے معاہدے کرنا چاہتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ "یرغمالیوں کی رہائی غزہ میں امن کی بنیادی شرط ہے۔ ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا چاہتا ہوں۔ شام پر سے پابندیاں ایک نئی شروعات کے لیے اٹھائی گئی ہیں۔ ہمیں خطے کو شرپسند عناصر سے پاک کرنا ہے۔ شام کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔" صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ "امریکا مشرقِ وسطیٰ میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔"
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج سعودی عرب کے دورے کے دوسرے دن امریکہ اور خلیجی تعاون کونسل (GCC) کے ارکان کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
صدر ٹرمپ کی سعودی دارالحکومت ریاض میں اس سربراہ اجلاس کے موقع پر شامی صدر احمد الشراع سے ملاقات متوقع ہے۔
امریکی صدر نے منگل کے روز شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد دمشق میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
مکمل تفصیلات:
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اپنے خلیجی دورے کا آغاز ایک حیران کن اعلان سے کیا، جس کے مطابق امریکا شام پر عائد طویل المدتی پابندیاں ختم کرے گا۔
ساتھ ہی، سعودی عرب نے امریکا میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، جبکہ امریکا نے سعودی عرب کو 142 بلین ڈالر کا دفاعی سازوسامان فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس معاہدے کو اپنی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی تعاون قرار دیا ہے۔
شام سے پابندیاں ہٹانا ایک ایسا قدم ہے جو کئی دہائیوں کی امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ شام پر پہلی بار 1979 میں پابندیاں لگائی گئیں جب اسے دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست قرار دیا گیا، اور بعد ازاں 2004 اور 2011 میں مزید پابندیاں عائد کی گئیں۔ اب جبکہ ملک نے خانہ جنگی کے بعد نئی قیادت، احمد الشارع، کے تحت نیا دور شروع کیا ہے، امریکا کا یہ قدم شام کے لیے عالمی تعلقات کی بحالی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟
صدر ٹرمپ نے ریاض میں سرمایہ کاری فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی درخواست پر شام سے پابندیاں اٹھا رہے ہیں۔ ان کے الفاظ میں یہ اشارہ بھی موجود تھا کہ امریکا شام کے ساتھ نئے باب کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔ شام کے وزیر خارجہ اسد الشیبانی نے بھی اس اقدام کو تعمیر نو کی راہ میں “نئی شروعات” قرار دیا۔
سعودی عرب اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے میں توانائی، دفاع، کان کنی، خلائی ٹیکنالوجی، اور مواصلاتی شعبوں میں تعاون شامل ہے۔ ان معاہدوں کا مقصد نہ صرف دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنا اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی رابطوں کو بہتر بنانا بھی ہے۔
امریکی اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ صدر ٹرمپ بدھ کے روز سعودی عرب میں صدر احمد الشارع سے مختصر ملاقات کریں گے، جو شام کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں ایک علامتی اہمیت رکھتی ہے۔
یہ دورہ نہ صرف امریکی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں پیدا کرتا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن اور سفارتی تعلقات پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔