پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخوا ایک عرصے سے بدامنی کا شکارہے،کرم اورپاراچنارتو’امن معاہدوں‘کے باجود بدامنی میں گھرا ہے،نومبر 2024 میں شروع ہونے والی قتل وغارت کی لہر ابھی تک نہیں تھم سکی،تاریخی طور پر یہ علاقے ایسے کئی واقعات سہہ چکے ہیں جن میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں،مگر 21 نومبر2024 کو ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ جھڑپ ہوئی۔ اس جھڑپ میں کم از کم 76 لوگ جاں بحق ہوئے
باقی علاقوں کو کرم سےملانے والی پارا چنار کے مقام پر اکلوتی سڑک آج ایک سو گیارویں دن بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے جس کی وجہ سے کرم کے مختلف علاقوں میں ضرورت کی چیزوں کی قلت ہے اور لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔ راستوں کی بندش کی وجہ سے ادویات کی کمی پیدا ہوئی ہے۔ خبر رسانںادارے ڈیلی پاکستان کے مطابق اب تک 157 بچے جان سے جا چکے ہیں۔
31 دسمبر کودونوں فریقین کے قبائلی رہنماؤں کاکے حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں امن معاہدہ طے پایا۔ کوہاٹ میں منعقدہ اس گرینڈ جرگے میں دونوں فریقین کے 45، 45 نمائندیں شامل تھے جنہوں نے معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کے نکات میں اسلحہ جمع کرانا، شاہراہوں کی حفاظت، فرقہ وارانہ جھڑپوں کا خاتمہ، امن کمیٹیوں کا قیام، اور کالعدم تنظیموں کی حوصلہ شکنی شامل ہیں۔ لیکن اب تک اس معاہدے کی کئی مرتبہ خلاف ورزی کی جا چکی ہے جس میں دونوں فریقین کے درمیان کئی مرتبہ جھڑپیں ہوئی ہیں اور کئی لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔

ضلع کرم میں دفعہ 144 نافذہے جس کے مطابق اسلحے کی نمائش اور 5 سے زائد افراد کا اکٹھے جمع ہونا منع ہے۔ 4 جنوری کو کرم کے علاقے بگن میں ڈپٹی کمشنر کی گاڑی پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود سمیت 7 افراد زخمی ہوئے۔ اسی طرح16 جنوری کو ٹل سے پاراچنار کی طرف جانے والے قافلے پر راکٹ سے حملہ کیا گیا۔ اس قافلےے میں 35 گاڑیاں شامل تھیں جو اشیائے خوردنوش لے کر جا رہی تھیں۔
کرم اور پاراچنار کے علاقوں میں ایسی جھڑپیں معمول بن چکی ہیں۔ در حقیقت ان علاقوں میں اہل سنت اور اہل تشیع دونوں طرح کے گروہ رہتے ہیں۔ اہل تشیع افراد افغانستان کی سرحد کے ساتھ جب کہ اہل سنت پاکستان کی جانب اس سے پہلے آتے ہیں۔ اہل تشیع افرادکو پاکستان کے باقی علاقوں سے ملانے والی سڑک صرف ایک ہے لیکن پارا چنار کے مقام پر اس سڑک پر اہل سنت افراد رہتے ہیں۔ جب بھی دونوں فریقین کے مابین کوئی جھڑپ ہوتی ہے تو اس سٹک کو بند کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے باقی علاقوں تک کھانا، پیٹرول، ادویات اور باقی اشیا پہنچ نہیں پاتی ہیں۔
حکومت کی جانب سے اشیائے خوردنوش کی ترسیل کے لیے پولیس اور رینجرز کی حفاظت میں کئی مرتبہ ٹرک بھیجے جا چکے ہیں۔ لیکن مندری کے مقام پر جاری دھرنے کی وجہ سے کچھ ٹرک ابھی تک کرم میں نہیں پہنچ پائے۔ خبر رساں ادارے ڈاون نیوز کے مطابق لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے کم از کم 500 ٹرک مزید چاہیے ہیں۔
مقامی آبادی کو تحفظ اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ علاقے میں امن و امان کی بحالی جلدممکن ہو سکے۔