روس کا جدید فضائی دفاعی نظام ایس–400، جسے کئی برسوں سے ناقابل تسخیر سمجھا جا رہا تھا، حالیہ مہینوں میں دنیا بھر میں جنگی میدان میں ہونے والی پے در پے ناکامیوں کے بعد دفاعی حلقوں میں سخت تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔
پاکستان میں اس موضوع پر خصوصی دلچسپی پائی جا رہی ہے، جہاں دفاعی ماہرین اور تجزیہ کار اس نظام کی کارکردگی کو جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے فضائی منظرنامے کے تناظر میں جانچ رہے ہیں۔
ستمبر 2023 میں یوکرینی فورسز نے کریمیا کے شہر ییوپاتوریا میں ایک ایس-400 بیٹری کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ اس کارروائی میں نیپچون کروز میزائلوں کو خودکش ڈرونز کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا، جس کے بعد اس تباہی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ریئل ٹائم میں وائرل ہوئی۔

عسکری تجزیہ کاروں نے اس واقعے کو روسی فضائی دفاع میں منظم حربی ناکامی کا مظہر قرار دیا، کیونکہ ایس-400 جیسے حساس نظام نے کم دِکھائی دینے والے، سطحِ سمندر کے قریب پرواز کرنے والے اہداف کو مؤثر طریقے سے ٹریک کرنے میں ناکامی ظاہر کی۔
اسی طرز کی ایک اور کارروائی اولینیوکا کے قریب بھی ہوئی، جس نے ایس-400 کی دفاعی کوآرڈینیشن پر مزید سوالات اٹھا دیے۔
مزید پڑھیں: مودی کی پاکستانی دریاؤں سے ’پانی چوری‘ میں تیزی، سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کیسے کی جارہی ہے؟
دفاعی رپورٹس کے مطابق 2023 کے آغاز سے اب تک روس تقریباً 15 ایس -400 لانچرز سے محروم ہو چکا ہے، جن میں سے متعدد کی ناکامی کا تعلق ریڈار سسٹمز کی خاموشی، ناقص میزائل فائرنگ اور مرمت میں تاخیر سے جوڑا گیا ہے۔
ماہر عالمی امور داکٹرشہزاد فرید نے اس حوالے سے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایس-400 کا اصل مسئلہ اس کا ‘اسٹینڈ الون’ نیچر ہے یعنی یہ جدید نیٹ ورک سینٹرڈ وارفیئر کے لیے مکمل طور پر انٹیگریٹڈ نہیں۔ یوکرین جیسے ممالک نے کم لاگت والے ڈرونز اور کروز میزائلوں کے ذریعے اس کے بائی پاس سسٹمز کو نشانہ بنا کر اس کی کمزوریاں عیاں کیں۔

گزشتہ دنوں میں پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث اس وقت شروع ہوئی، جب ایک وائرل ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کے جے ایف- 17 تھنڈر لڑاکا طیارے سے فائر کیے گئے ایک ہائپر سونک میزائل نے انڈیا کے آدم پور ایئر بیس پر موجود ایس-400 یونٹ کو نشانہ بنایا۔ اس ویڈیو کو پاکستانی دعوؤں کو انڈیا نے مسترد کیا ہے ، مگر اس نے پاکستانی دفاعی حلقوں کو مزید متحرک کر دیا ہے۔
ڈاکٹر شہزاد کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ جے ایف -17 بلاک 3 نے لانگ رینج اسٹینڈ آف میزائلز یا ہائپرسونک ہتھیار استعمال کر کے ایس -400 کو تباہ کیا ہے۔ تکنیکی طور پر یہ ممکن ہے کہ اس نے S-400 کی رینج کو چکمہ دے کر کامیاب حملہ کیا ہے۔
لازمی پڑھیں: اسلام آباد میں یوم تشکر کی خصوصی تقریب: ’اگر ہم مستقل امن چاہتے ہیں تو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل اور دفاعی تجزیہ کار فہیم قریشی کے مطابق ایس – 400کی حالیہ ناکامیاں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ جدید جنگی حکمتِ عملیوں کے سامنے یہ نظام مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہو رہا۔ یہ سسٹم پرانے ریڈارز اور ناقص نیٹ ورک انضمام پر انحصار کرتا ہے، جس سے ریئل ٹائم ڈیٹا فیوژن ممکن نہیں ہو پاتی، یہی خامیاں یوکرین نے بارہا استعمال کیں۔
پاکستان کا موجودہ فضائی دفاعی نظام چینی ایچ کیو -9 اور ایچ کیو – 16 میزائل بیٹریز پر مشتمل ہے، جنہیں ابتدائی انتباہی طیارے اور الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز کی مدد حاصل ہے۔ دفاعی حکمتِ عملی کے تحت یہ ایک لیئرڈ ڈیفنس ماڈل ہے، جو بیک وقت مختلف سطحوں پر فضائی خطرات سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے۔

ڈاکٹر شہزاد فرید نے کہا کہ ایچ کیو-9 اور ایچ کیو-16 پاکستان کے فضائی دفاع میں ایک مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں، مگر اگلی نسل کے ہتھیاروں جیسے ہائپرسونک میزائلز اور لو آوبزرویبل ڈرونز کے مقابلے کے لیے ان میں اے آئی بیسڈ اپڈیٹس اور ڈیپ نیٹورک انٹیگریشن ضروری ہے۔
ماہرین نے ایس – 400 کی ناکامی کی تین اہم وجوہات کی نشاندہی کی ہے۔ پہلی کمزور نیٹ ورک انضمام ہے، جس سے کم ریڈار کراس سیکشن رکھنے والے اہداف آسانی سے گزر جاتے ہیں، دوسری وجہ عملے اور لاجسٹک کی خامیاں ہیں، جو نظام کی بروقت کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں اور تیسری جدید جنگی حکمتِ عملیوں جیسے ڈرون سوارمز اور کروز میزائلز کا بڑھتا ہوا استعمال ہے، جس سے دفاعی نظام اوورلوڈ ہو جاتا ہے۔
پاکستانی دفاعی قیادت اب اس سوال پر غور کر رہی ہے کہ آیا مستقبل میں چین کے جدید جے-35 اسٹیلتھ لڑاکا طیارے اور ایچ کیو – 19 انٹرسیپٹرز اس خلا کو پر کرنے کے قابل ہوں گے یا پاکستان کو مزید جدید کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز، مصنوعی ذہانت اوردیگر نیٹ ورک پر انحصار بڑھانا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان یا پھر انڈیا، ففتھ جنریشن طیارہ پہلے کون لائے گا؟
ڈاکٹر شہزاد فرید نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ مستقبل کا فضائی دفاع مکمل طور پر اے آئی پر مبنی ریئل ٹائم ڈیٹا فیوژن اور نیٹ ورک سینٹرڈ ماڈل پر منتقل ہو رہا ہے۔ جو ممالک اس میں پیچھے رہیں گے وہ صرف مہنگے ہتھیار رکھ کر بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ سکتے۔
موجودہ دور میں اب روایتی ہتھیاروں پر انحصار کافی نہیں رہا،بدلتے ہوئے جنگی منظرنامے میں کامیابی کا انحصار ٹیکنالوجی، ہم آہنگی اور فوری فیصلہ سازی پر مبنی نظاموں پر ہے اور یہی عناصر آنے والے برسوں میں خطے کی فضائی برتری کا تعین کریں گے۔