Follw Us on:

’پاکستان کی حمایت‘ پر انڈیا نے ترکیہ سے تجارتی و تعلیمی رابطے معطل کر دیے، کس ملک کو نقصان ہوگا؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Turkiye india

نئی دہلی اور انقرہ کے درمیان تعلقات میں حالیہ کشیدگی کے بعد انڈیا نے ترک کاروباری اداروں اور تعلیمی اداروں سے اپنے روابط ختم کرنا شروع کر دیے ہیں۔ جس کی وجہ حالیہ پاکستان، انڈیا کشیدگی میں ترکیہ کا کھل کر پاکستان کی حمایت کرنا ہے۔

انڈین حکومت نے ترکی کی بڑی گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنی سیلیبی کو سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر ملک کے ہوائی اڈوں پر کام کرنے سے روک دیا ہے۔ یہ کمپنی دہلی، ممبئی اور دیگر بڑے ہوائی اڈوں پر طویل عرصے سے کام کر رہی تھی۔ انڈیا کے وزیر مملکت برائے ایویشن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا کہ انہیں عوام کی جانب سے متعدد درخواستیں موصول ہوئیں کہ اس کمپنی کو ملک کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جائے۔ ان درخواستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت نے سیلیبی کی سیکیورٹی کلیئرنس منسوخ کر دی ہے۔

سیلیبی کمپنی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قانونی طریقوں سے فیصلے کو چیلنج کرے گی۔ کمپنی نے سیکیورٹی کلیئرنس کی منسوخی کو “غیر منصفانہ” قرار دیا اور کہا کہ وہ انڈیا کے ایئرپورٹ آپریشنز میں کسی بھی رکاوٹ کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گی۔

تعلیمی شعبے میں بھی اس کشیدگی کے اثرات نمایاں ہوئے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سمیت کئی انڈین یونیورسٹیوں نے ترکی کے تعلیمی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات معطل کر دیے ہیں۔

Pm office

یہ کشیدگی گزشتہ ہفتے اُس وقت شدت اختیار کر گئی جب انڈیا نے پاکستان پر کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کا الزام لگا کر فضائی کارروائی کی۔ پاکستان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا، تاہم ترکی اور آذربائیجان نے فوری طور پر پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے انڈیا کے حملوں کی مذمت کی۔ ترکی نے یہاں تک کہا کہ وہ “ہر قسم کی جنگ” کے خلاف ہے اور پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔

ان بیانات کے بعد انڈیا میں ترکی اور آذربائیجان کے خلاف سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مہم تیزی سے پھیل گئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر راجیو چندر شیکھر نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنی کمائی ان ممالک میں خرچ نہ کریں جو انڈیا کے دشمنوں کی حمایت کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی اس مہم کے بعد اس کا عملی اثر بھی سامنے آیا۔ انڈین ٹریول ویب سائٹس نے ترکی اور آذربائیجان کے لیے بکنگ میں 60 فیصد کمی اور منسوخیوں میں 250 فیصد اضافہ رپورٹ کیا ہے۔ ویب سائٹ میک مائی ٹرپ کے ترجمان کے مطابق، صارفین نے ان مقامات کے لیے شدید جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ بکنگ اب بھی ممکن ہے، لیکن زیادہ تر سائٹس نے ان ممالک کے لیے پروموشنز اور ڈسکاؤنٹس ہٹا دیے ہیں۔

دہلی میں ایک ٹریول ایجنٹ روہت کھٹر نے بتایا کہ اُن کے صارفین میں ترکی کا سفر کرنے سے جھجک دیکھی جا رہی ہے۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ سوشل میڈیا پر ردعمل کے خوف سے ترکی جانے سے گریز کر رہا ہے۔ اُن کی ایجنسی نے ایسے ٹور پیکجز بند کر دیے ہیں جن پر خطرہ ہو کہ وہ منسوخ ہو سکتے ہیں۔

Turkiye india

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں 3 لاکھ 30 ہزار انڈین شہریوں نے ترکی کا سفر کیا، جب کہ 2023 میں یہ تعداد 2 لاکھ 74 ہزار تھی۔ آذربائیجان کا سفر کرنے والے انڈین شہریوں کی تعداد بھی بڑھ کر 2 لاکھ 44 ہزار ہو چکی ہے۔ تاہم ترکی کی مجموعی سیاحت میں انڈینز کا حصہ اب بھی 1 فیصد سے کم ہے، جبکہ آذربائیجان میں یہ حصہ تقریباً 9 فیصد ہے۔

وبا کے بعد ترکی اور آذربائیجان انڈین مسافروں کے لیے سستے اور یورپ جیسے تجربات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ براہِ راست پروازوں اور بجٹ ایئرلائنز نے ان ممالک تک رسائی کو مزید آسان بنایا۔

اگرچہ سوشل میڈیا پر کچھ صارفین یونان جیسے متبادل مقامات کو فروغ دے رہے ہیں، مگر ٹریول کمپنیوں کے مطابق فی الحال ان ممالک کے لیے کوئی نمایاں دلچسپی سامنے نہیں آئی۔ ویب سائٹ کلیئر ٹرپ کے ترجمان نے بتایا کہ ابھی تک کسی متبادل جگہ پر بکنگ میں بڑا فرق نہیں آیا، کیونکہ صورتحال اب بھی بدل رہی ہے۔

انڈیا اور ترکی کے تعلقات میں یہ کشیدگی صرف حکومتی فیصلوں تک محدود نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے، جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تجارتی، تعلیمی اور سیاحتی تعلقات خطرے میں نظر آ رہے ہیں۔

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس