جمعرات کی صبح سے غزہ پر جاری اسرائیلی فضائی اور توپ خانے کے شدید حملوں میں اب تک 250 سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ مارچ میں جنگ بندی کے خاتمے کے بعد یہ سب سے مہلک بمباری ہے۔ خدشہ ہے کہ جلد ہی اسرائیل غزہ میں ایک نئی زمینی کارروائی کا آغاز کرے گا۔
زیادہ تر حملے غزہ کے شمالی علاقوں پر مرکوز رہے، جو پہلے ہی شدید متاثرہ اور گنجان آباد علاقے ہیں۔ ان حملوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی بھی شامل ہے، جن کی ہلاکتوں نے صورتحال کو مزید المناک بنا دیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے عالمی دباؤ اور جنگ بندی کی اپیلوں کے باوجود جاری ہیں۔ علاقے میں خوراک، پانی، اور طبی امداد کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں نے قحط کے خطرے سے خبردار کیا ہے، لیکن اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث امدادی سامان کی ترسیل مسلسل متاثر ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امن مذاکرات کے چند ہی گھنٹے بعد روس کا یوکرین پر حملہ، ’ایک سنگین جنگی جرم‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے دورے کے اختتام پر غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو بھی مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، اور دونوں اطراف کو دیکھنا ہوگا۔ تاہم، جب ان سے اسرائیلی حملوں پر مؤقف پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ آئندہ ماہ میں اچھی پیش رفت کی امید ہے۔

جمعہ کی نصف شب سے پہلے اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ انہوں نے غزہ کے اندر کچھ علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے وسیع حملے شروع کر دیے ہیں، اور زمینی فوج کی منتقلی جاری ہے۔ فوج کے مطابق یہ کارروائی “آپریشن گیڈون ویگنز” کا حصہ ہے، جس کا مقصد حماس کی شکست اور یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی بازیابی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے پہلے ہی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ غزہ میں ایک وسیع اور شدید حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جس میں غزہ کی پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور امداد کے تمام راستے اپنے اختیار میں لینے کی کوششیں شامل ہیں۔ اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔
ایک اسرائیلی دفاعی اہلکار نے چند روز قبل کہا تھا کہ یہ کارروائی صدر ٹرمپ کے دورے کے مکمل ہونے سے پہلے شروع نہیں کی جائے گی۔ اب جب کہ وہ دورہ مکمل ہو چکا ہے، اسرائیل نے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
غزہ میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ شہری بمباری، بھوک، بیماری اور بے دخلی کا سامنا کر رہے ہیں، اور عالمی برادری کی خاموشی نے فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانیت کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور فوری عالمی مداخلت ناگزیر ہو چکی ہے۔