Follw Us on:

علی خان محمودآباد کی گرفتاری پرانڈین اپوزیشن سراپا احتجاج: ’بیان قوم دشمن تھا اور نہ ہی عورت مخالف ہے‘

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Muhamadabad
آپریشن سندور پر تنقید کرنے پر پروفیسر علی خان محمودآباد گرفتار

انڈیا میں معروف اسکالر اور اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمودآباد کی گرفتاری نے ملک بھر میں سیاسی بھونچال پیدا کر دیا ہے۔

ان پر بغاوت، مذہبی جذبات مجروح کرنے اور قومی سلامتی کے خلاف بیانات دینے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے ان الزامات کو بے بنیاد اور انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے بی جے پی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔

پروفیسر علی خان محمودآباد کو اتوار کے روز دو ایف آئی آرز کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا، جن میں ایک شکایت بی جے پی کے ایک عہدیدار اور دوسری ہریانہ خواتین کمیشن کی سربراہ کی جانب سے درج کی گئی۔

شکایات میں ان کے سوشل میڈیا پر دیے گئے تبصروں کو بنیاد بنایا گیا جن میں انہوں نے “آپریشن سندور” پر ہونے والے جذباتی ردعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب کچھ طبقات فوجی کارروائیوں پر خوشیاں منا رہے تھے وہیں مسلم کمیونٹی کے خلاف ہونے والی پرتشدد کارروائیوں پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیرستان میں ’کواڈ کاپٹر حملہ‘، چار بچے جاں بحق، مظاہرین کا دھرنا

اس گرفتاری پر سب سے پہلے آواز اٹھانے والوں میں ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا شامل تھیں جنہوں نے اسے “بچگانہ الزامات” قرار دیتے ہوئے کہا کہ محمودآباد کی گرفتاری صرف ان کے نام کی وجہ سے ہوئی۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر پروفیسر کی پوسٹ کو دوبارہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں۔

کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے بھی سخت ردعمل دیا اور کہا کہ”بی جے پی کو تنقید سے اتنا خوف ہے کہ وہ اب اسکالرز کو بھی گرفتار کرنے لگی ہے۔”

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایک جانب پروفیسر کو محض ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر گرفتار کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب مدھیہ پردیش کے وزیر وجے شاہ کھلے عام نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔

کھڑگے نے مزید کہا کہ یہی وزیر، کرنل صوفیہ قریشی کو “دہشت گردوں کی بہن” کہہ چکے ہیں مگر بی جے پی ان کے خلاف ایک لفظ تک بولنے کو تیار نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جو امن، برداشت یا تنقید کی بات کرے۔

ضرور پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی: دونوں ممالک کی معیشیت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

آر جے ڈی کے ایم پی منوج کمار جھا نے بھی سخت لہجہ اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ “حکومت پر تنقید کرنا قوم پر تنقید نہیں ہوتی۔ جمہوریت میں تنقید حب الوطنی کی علامت ہوتی ہے، نہ کہ بغاوت۔”

دوسری جانب، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے گرفتاری کو قانونی عمل کی صریح خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ “محض بی جے پی کے ایک کارکن کی شکایت پر ہریانہ پولیس نے کارروائی کی، جبکہ پروفیسر کا بیان نہ تو قوم دشمن تھا، نہ ہی عورت مخالف۔”

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے بھی محمودآباد کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیا ہے۔

مزید پڑھیں: مودی کی پالیسیوں پر تنقید، انڈیا نے خاتون پروفیسر کی شہریت منسوخ کر دی

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس