Follw Us on:

سینیٹ قائمہ کمیٹی اجلاس: سیلز ٹیکس ریفنڈز میں تاخیر اور کاروبار کی دبئی منتقلی پر تشویش کا اظہار

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Senate commettie
سیلز ٹیکس ریفنڈز کی عدم ادائیگی پر بے شمار شکایات موصول ہو چکی ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا اجلاس چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں سیلز ٹیکس ریفنڈز، کاروباری ہجرت اور ٹیکس پالیسیوں سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں سینیٹرز فاروق حمید نائیک، سید فیصل علی سبزواری، فیصل واوڈا، منظور احمد اور عبدالقادر نے شرکت کی، جب کہ سینیٹر محسن عزیز نے آن لائن شرکت کی۔

اجلاس میں برآمدات اور دیگر شعبوں کے سیلز ٹیکس ریفنڈز میں تاخیر کا معاملہ مرکزی ایجنڈا رہا۔ چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈز کی عدم ادائیگی پر بے شمار شکایات موصول ہو چکی ہیں۔

پالیسی کے مطابق 72 گھنٹوں میں ریفنڈز جاری ہونے چاہئیں، لیکن کئی کیسز میں مہینے گزر چکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یا تو پالیسی ختم کر دی جائے یا پھر نظام کو مؤثر انداز میں چلایا جائے اور اصل مسئلے کی نشاندہی کی جائے۔

مزید پڑھیں: خضدار حملہ، 4 بچوں سمیت 6 جاں بحق: ’انڈیا کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا جائے گا

ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پانچ بڑے برآمدی شعبوں ٹیکسٹائل، لیدر، کھیلوں کا سامان، قالین اور سرجیکل آلات کے تصدیق شدہ تمام بقایاجات فولی آٹومیٹڈ سیلز ٹیکس ای-ریفنڈ سسٹم کے ذریعے جاری کیے جا چکے ہیں اور اس وقت کوئی درست کلیم زیر التواء نہیں ہے۔

چیئرمین مانڈوی والا نے خوراک برآمد کرنے والے شعبے کی ریفنڈز کی عدم ادائیگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا، جس کی برآمدات 4.8 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ ایف بی آر کو ریفنڈز کے اجرا میں شعبہ وار ترجیحی نظام اپنانا چاہیے۔ ایف بی آر حکام نے آگاہ کیا کہ خوراک کے برآمدی شعبے کے ریفنڈز جمعہ تک جاری کیے جائیں گے اور تمام 72 برآمدی شعبوں کو ریفنڈ پالیسی میں شامل کیا جا رہا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ تمام زیر التواء ریفنڈز کی مکمل تفصیل بمعہ ٹائم لائن، متاثرہ شعبہ جات اور تاخیر کی وجوہات کے ساتھ رپورٹ پیش کرے۔

اجلاس میں ایک اور اہم نکتہ پاکستانی کاروباروں کی دبئی منتقلی کا رجحان تھا، جس کی بڑی وجہ بھاری ٹیکسز اور سخت ریگولیٹری ماحول بتائی گئی۔ ایف بی آر حکام نے اس رجحان کی سرکاری سطح پر تصدیق کی۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ دبئی میں قائم پاکستانی کاروباروں کو ختم کرنے کی بجائے ہمیں ملک میں بہتر سہولیات اور مراعات فراہم کرنا ہوں گی تاکہ وہ یہاں ترقی کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی محاصرہ جاری: بھوک سے مزید 326 فلسطینی شہید

ایف بی آر نے مزید بریفنگ میں بتایا کہ نان فائلرز کے لیے پراپرٹی ٹیکس کی شرح 5 سے 35 فیصد کے درمیان ہے اور یہ اعتراف کیا کہ موجودہ ٹیکس نظام کاروباروں پر بھاری بوجھ ڈال رہا ہے۔

حکام کا کہنا تھاکہ یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ ٹیکسز بہت زیادہ لاگو کیے جا رہے ہیں، لیکن ایف بی آر صرف وہی ٹیکس جمع کرتا ہے، جو قانون کے مطابق نافذ ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ وزیر خزانہ اور متعدد اراکین کمیٹی کی عدم موجودگی کے باعث دیگر ایجنڈا آئٹمز کو اگلے اجلاس تک مؤخر کر دیا گیا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس