Follw Us on:

مئی 1998 جب پی آئی اے کا طیارہ اغوا کر کے انڈیا لے جانے کی کوشش ڈرامائی طور پر ناکام بنائی گئی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Pia hijecker
مئی 1998 جب پی آئی اے کا طیارہ اغوا کر کے انڈیا لے جانے کی کوشش ڈرامائی طور پر ناکام بنائی گئی( فوٹو:اے ایف پی )

24مئی 1998 میں گوادر سے کراچی جانے والی پی آئی اے پرواز کو تین ہائی جیکرز نے اغوا کر کے انڈیا لے جانے کی کوشش کی،مگر پاکستانی حکام نے حیدرآباد ائیرپورٹ (پاکستان) کو  انڈین بھوج ائیرپورٹ بنا کر اس ڈرامائی کوشش کو نکام بنادیا۔

یہ وہ دور ہے جب انڈیا 11 سے 13 مئی 1998 کے دوران متعدد ایٹمی دھماکے کر چکا تھا اور پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کافی کشیدہ ہو چکے تھے۔ یہ باتیں بھی عام ہو رہی تھیں کہ انڈیا جوابی ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کے لیے پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ ممکنہ طور پر ہو سکتی ہے۔

تینوں ہائی جیکرز  جمال حسین، انور حسین اور غلام حسین جعلی ناموں پر سفر کر رہے تھے اور ان کا تعلق بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے تھا۔ وہ اسلحے سے بھرے بیگ کے ساتھ طیارے میں سوار ہوئے۔ انہوں نے ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) کے افسر کو ایک لاکھ روپے رشوت دی اور اسے یہ باور کرایا کہ وہ منشیات اسمگلنگ کر رہے ہیں۔ اس رقم کے عوض سیکیورٹی افسر نے بیگ کی تلاشی کے بغیر اسے طیارے تک لے جانے کی اجازت دے دی، یوں ہائی جیکرز اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئے اور اسلحے سے بھر ا بیگ  جہاز میں لے گئے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق طیارے میں اس وقت 33 مسافروں کے علاوہ عملے کے پانچ ارکان بشمول جہاز کے کپتان کیپٹن عزیر خان، فرسٹ آفیسر محمد فیصل، ایئرہوسٹس خالدہ آفریدی، فلائٹ اٹینڈنٹ اور فلائٹ انجینئر محمد سجاد چوہدری سوار تھے۔

طیارے کے کپتان عزیر خان نے کمال مہارت سے ہائی جیکرز کو ان کے منصوبہ کے مطابق  یقین دلایا کہ وہ انڈیا کے شہر بھوج  ایئرپورٹ پرجہاز کی ری فلنگ کے لیے  لینڈ کر رہے ہیں، حالانکہ وہ اصل میں پاکستان کے شہر حیدرآباد میں تھے۔ ایئرپورٹ کی لائٹس بند کر دی گئیں اور ایئرپورٹ کا سائن بھی چھپا دیا گیا تاکہ ہائی جیکرز کو پتہ نہ چلے۔

پولیس، رینجرز اور فوج نے فوری طور پر ایئرپورٹ کو گھیر لیا۔ اختر گورچانی (اس وقت کے ایس ایس پی) اور اے ایس پی ڈاکٹر عثمان انور ( موجودہ آئی جی پنجاب )نے ہوشیاری سے ہائی جیکرز سے بات چیت شروع کی۔ انھوں نے خود کو انڈین ایئرپورٹ کے عملے کے طور پر ظاہر کیا۔ ڈاکٹر عثمان کا نام ‘رام چندر’ اور گورچانی کا ‘منوج کمار’ رکھا گیا۔

ہائی جیکرز انٹرویو کے لیے انڈیا کے زی ٹی وی کی ٹیم کا انتظار کر رہے تھے۔ بات چیت کے دوران افسران نے ان کا اعتماد حاصل کر لیا۔ انھیں کھانا اور پانی دیا گیا، جس پر انھوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ کھانے کے لیے تھائی زبان کے کاغذ استعمال کیے گئے تاکہ وہ شک نہ کریں کہ وہ پاکستان میں ہیں۔

تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ہائی جیکرز کے پاس بم نہیں بلکہ صرف پستول تھے۔ ان کی تعداد بھی تین ہی تھی، باقی دو افراد کو دھمکا کر اپنے ساتھ کھڑا کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:امریکا ٹی شرٹس نہیں بلکہ ٹینکس بنائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن کو’پاگل‘ قرار دے دیا

آخر کار افسران نے ایک منصوبہ بنایا۔ جب ہائی جیکرز نے عورتوں اور بچوں کو نیچے اتارنے کی اجازت دی تو اسی لمحے نعرہ تکبیر کے ساتھ آپریشن شروع ہوا اور تینوں ہائی جیکرز کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک ہائی جیکر کی گولی اپنے ہی ساتھی کو لگی اور وہ زخمی ہو گیا۔

بعد میں تینوں ہائی جیکرز کو انسداد دہشت گردی عدالت نے سزائے موت سنائی۔ ڈاکٹر عثمان انور اور اختر گورچانی کو ان کی بہادری پر انعامات دیے گئے۔

یہ آپریشن ایک زبردست ٹیم ورک کی مثال تھا، جس نے درجنوں جانیں بچائیں اور پاکستان کو ایک بڑی بدنامی سے بچا لیا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس