نومنتحب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےپیر کے روز عہدہ اٹھانے کے بعد حکومت سنبھالتے ہی 78 ایگزیکٹو آرڈرز پہ دستخط کر دیے ہیں۔ ان آرڈرز میں سے امریکی صدر نے وفاقی ملازمین کے لیے ریمورٹ ورک ختم کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کیے ہیں۔
عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق دوسری دفعہ منتخب ہونے والے امریکی صدر نے گزشتہ روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے مطابق ریمورٹ ورک کرنے والے وفاقی ملازمین کومتعلقہ اسٹیشن پر کام کرنے کا پابند بنایا جائے۔ یہ ایسا اقدام ہے جس کے بارے میں توقع کی جا رہی ہے کہ اس ایگزیکٹیو آرڈر کے خلاف ملازمین کی یونین کی طرف سے رد عمل اور قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے اس ایگزیکٹیو آرڈر پر عمل درآمد کرانے کے لیے وفاقی ایجنسیوں کے سربراہوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ریمورٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے جلد سے جلد اقدامات کریں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ‘بی بی سی’ کے مطابق امریکی آئین کا آرٹیکل 2 صدر کو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر یا صدارتی حکم نامہ امریکی صدر کی طرف سے وفاقی حکومت کو ایک تحریری حکم ہوتا ہے جس کے لیے پارٹی کی اجازت نہیں چاہیے ہوتی۔ صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ریمورٹ ورک کرنے والے وفاقی ملازمین کو متعلقہ اسٹیشن پر کام کرنے کا صدارتی حکم نامہ جاری کر سکتا ہے۔
خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق تقریباً 26% وفاقی ملازمین یونینائزڈ ہیں اور یہ ملازمین بہت سے معاہدوں کے تحت آتے ہیں۔ ان معاہدوں کے مطابق ملازمین کو ریمورٹ ورک یا ہائبرڈ انتظامات کی اجازت دی جاتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ان کی میعاد ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا یا معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ وفاقی ایجنسیوں اور یونینز کے درمیان سودے بازی کے معاہدوں کو صرف عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
کچھ معاملات میں وفاقی ایجنسیوں کو معذور ملازمین کو ریمورٹ ورک کرنے کی اجازت دینے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ وفاقی قانون آجروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دائمی طبی حالات والے کارکنوں کو مناسب رہائش فراہم کریں جب تک کہ وہ اپنے کام کے فرائض انجام دے سکیں۔
ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈرز پر ستخط کرنے کے دوران ریمورٹ ورکرز کی تعداد 6 فیصد بتائی تھی لیکن خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق ریمورٹ ورکرز کی تعدادتقریبا” 46 فیصد یا 1.1 ملین افراد پر مشتمل ہے۔
امریکی صدر کے اس ایگزیکٹیو حکم سے کئی وفاقی ملازمین ریمورٹ ورک کو ختم کرنے کی وجہ سے استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں۔ برطابوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ ان ایگزیکٹو آرڈرز کی قیادت ایلون مسک کریں گے۔
ادھر ایلون مسک ریمورٹ ورک کے حوالے سے ٹرمپ کے اس حکم نامے کی تعریف کرتے ہوئے ایکس ( سابقہ ٹویٹر) پر اپنے جاری کردہ پیغام میں لکھا کہ یہ فیصلہ بلکل شفافیت کے لئے کیا گیا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مختلف مصنوعات بنانے اور خدمات مہیا کرنے والے زیادہ تر لوگ کام پر جائیں اور وفاقی ملازمین گھر بیٹھ کر کام کریں۔

لیکن ایجنسیاں بڑی تعداد میں برطرفیوں یا برطرفیوں میں مشغول ہو سکتی ہیں، خاص طور پر جب ان میں ایسے کارکن شامل ہوں جو اہم کردار ادا کرتے ہیں یا انہیں تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے۔
صدر اور ایجنسی کے سربراہوں کے پاس غیر یونین کارکنوں کو دفتر میں واپسی کے مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی وجہ سے برطرف کرنے کا وسیع اختیار حاصل ہے۔ لیکن وفاقی ملازمین کو تحریری اطلاع دینا ضروری ہے کہ انہیں کم از کم 30 دن پہلے برطرف کیا جا رہا ہے، بشمول ان کی برطرفی کی وجہ کی وضاحت اور جواب دینے کا موقع بھی ہو۔
دوسری جانب اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے والے وفاقی کارکن صدر کی طرف سے مقرر کردہ ایک آزاد تین رکنی پینل ‘میرٹ سسٹمز پروٹیکشن بورڈ’ کے سامنے ایک چیلنج بھی لا سکتے ہیں۔
ملازمین بورڈ کے سامنے یہ بحث کر سکتے ہیں کہ انہیں اس وجہ سے برطرف نہیں کیا گیاکہ ملازمین نے مناسب طریقہ کار پر عمل نہیں کیا اورملازمین نے ان کے مناسب طریقہ کار کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ بلکہ انہیں امتیازی وجوہات کی بنا پر نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ بورڈ کے فیصلے اس وقت تک پابند ہوتے ہیں جب تک کہ وہ وفاقی اپیل کورٹ کی طرف سے الگ نہ کر دیں۔