Follw Us on:

شہباز شریف کا اہم ایشیائی ریاستوں کا دورہ: کیا پاکستان خارجہ پالیسی کا نیا باب کھول رہا ہے؟

احسان خان
احسان خان
Shahbaz sharif
شہباز شریف کا اہم ایشیائی ریاستوں کا دورہ: کیا پاکستان خارجہ پالیسی کا نیا باب کھول رہا ہے؟( فائل فوٹو)

پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے اور اس بار اس کی توجہ مشرقِ وسطیٰ یا مغرب پر نہیں، بلکہ وسطی ایشیا کی طرف ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت دینے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورے کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان جیسے ممالک سے باہمی تعاون اور علاقائی رابطوں کے فروغ پر تبادلہ خیال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان محض ایک جنوبی ایشیائی ریاست نہیں بلکہ ایک علاقائی پل کے طور پر اپنی حیثیت منوانا چاہتا ہے۔

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور گوادر بندرگاہ کی افادیت کے تناظر میں یہ دورہ نہ صرف اقتصادی مفادات کا حامل ہے بلکہ اس سے سفارتی توازن قائم کرنے کی کوشش بھی جھلکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دورہ پاکستان کو وسطی ایشیا کے دروازے کھولنے میں مدد دے گا یا صرف رسمی بیانات تک ہی محدود رہے گا؟

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر عالمی امور پروفیسر ڈاکٹر ابوالحسن نے کہا کہ “یہ دورہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک نئی سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ وسطی ایشیا میں پاکستان کا کردار ایک ‘گیٹ وے’ کے طور کی حیثیت حاصل کر سکتا ہے بشرطیکہ ہم مسلسل اور عملی روابط قائم رکھ سکیں۔”

اگرچہ پاکستان نے 1990 کی دہائی میں وسطی ایشیائی ریاستوں کے آزاد ہونے کے بعد ان سے سفارتی تعلقات استوار کر لیے تھے، تاہم ان تعلقات میں عملی پیش رفت ہمیشہ سست روی کا شکار رہی۔ مگر حالیہ برسوں میں سی پیک، گوادر بندرگاہ اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے نے وسطی ایشیا کے ساتھ اقتصادی ربط کی نئی امیدیں پیدا کی ہیں۔

ماہر عالمی امور پروفیسر ڈاکٹر عرفان علی فانی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے  کہا کہ “وسطی ایشیا کے ساتھ بجلی کے تبادلے کے منصوبے پاکستان کی توانائی کی ضروریات کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اگر ان ممالک سے طے شدہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو بہت سے بحرانوں میں واضح کمی آ سکتی ہے۔”

گوادر بندرگاہ اور سی پیک کا انفراسٹرکچر وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے گرم پانیوں تک رسائی کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔ اگر پاکستان اس راستے کو مؤثر طریقے سے استعمال کرے تو وہ خود کو ایک علاقائی تجارتی مرکز کے طور پر منوا سکتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ابوالحسن نے مزید کہا کہ “اگرچہ امکانات بہت ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہماری بیوروکریسی ان مواقع کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ پالیسی سطح پر ہم متحرک ہیں۔ لیکن زمینی سطح پر عملدرآمد کی رفتار اب بھی سست ہے۔”

پاکستان کے اس دورے کو بھارت، ایران، روس اور چین جیسے علاقائی کھلاڑیوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ان تمام ممالک کی وسطی ایشیا میں دلچسپی ہے اور ہر ملک اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں :شہباز شریف کی آذربائیجانی صدر سے ملاقات: ‘تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے عزم کا اظہار

پروفیسر ڈاکٹر عرفان علی فانی کے نزدیک “یہ ایک حساس توازن ہے۔ پاکستان کو یہ تعلقات بناتے ہوئے محتاط رہنا ہوگا کہ وہ کسی ایک بلاک یا طاقت کے بہت زیادہ قریب نہ ہو، ورنہ اس کے اثرات سفارتی توازن پر پڑ سکتے ہیں۔”

وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت اور رابطے کی سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان کی غیر مستحکم سیکیورٹی صورتحال ہے۔ زمینی رابطوں اور ٹرانزٹ کے لیے افغانستان ایک مرکزی راستہ ہے۔ لیکن مسلسل سیاسی عدم استحکام اور دہشتگردی کے خطرات ان منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

پروفیسر ابوالحسن کا ماننا ہے کہ “جب تک افغانستان میں قابلِ بھروسہ نظام اور امن قائم نہیں ہوتا، علاقائی روابط خواب ہی رہیں گے۔ پاکستان کو یہ مسئلہ سفارتی اور سیکیورٹی سطح پر ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔”

پاکستان کا نجی شعبہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور زراعت جیسے شعبوں میں دلچسپی رکھتا ہے، لیکن انہیں سرکاری سطح پر سہولتوں اور واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔

پروفیسر عرفان علی فانی کا کہنا ہے کہ “اگر حکومت کاروباری وفود کے لیے مستقل سہولیات اور فالو اپ میکانزم مہیا کرے تو وسطی ایشیا ایک زبردست مارکیٹ ثابت ہو سکتی ہے۔”

مزید پڑھیں:وزیراعظم شہباز شریف کی ترک صدرایردووان سے ملاقات: ’ترکیہ کی حمایت سے پاکستان کو فتح ملی‘

وزیراعظم شہباز شریف کا وسطی ایشیائی ممالک کا دورہ محض ایک روایتی سفارتی سرگرمی نہیں بلکہ ایک اسٹریٹیجک پالیسی شفٹ کی علامت ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہم تعلقات بڑھا رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم ان تعلقات کو عملی تعاون، دیرپا معاہدوں اور علاقائی ربط میں بدل پائیں گے؟

اگر پاکستان مستقل مزاجی سے ان سفارتی، اقتصادی اور توانائی معاہدوں پر عملدرآمد کرے، تو یہ دورہ خارجہ پالیسی میں ایک نیا باب ضرور ثابت ہو سکتا ہے۔

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس