Follw Us on:

چین سے گوادر تک: سی پیک پاکستان کے لیے ترقی کا سفر یا  پھر خودمختاری کو خطرہ؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Cpec

چین اور پاکستان کی شراکت میں شروع ہونے والے سی پیک میں اب افغانستان بھی شراکت دار بن چکا ہے، جس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جیسا کہ کیا پاکستان ایک نئے اقتصادی انقلاب کی دہلیز پر کھڑا ہے یا پھر ایک ایسے معاہدے میں الجھ چکا ہے جو کہیں اس کی خودمختاری کو داؤ پر نہ لگا دے؟

چین کے ساتھ شروع ہونے والا ”چائنا-پاکستان اکنامک کوریڈور“یا”سی پیک“ اب ایک دہائی مکمل کر چکا ہے، لیکن اس کے اثرات اور ثمرات پر بحث آج بھی جاری ہے۔

2015 میں جب وزیرِاعظم نواز شریف کی حکومت نے سی پیک کا اعلان کیا، تو اسے پاکستان کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ قرار دیا گیا۔ 62 ارب ڈالر سے زائد کے اس منصوبے کے تحت سڑکوں، توانائی، ریلوے اور بندرگاہوں سمیت انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے پر کام شروع ہوا۔

یہ راہداری چین کے مغربی صوبے سنکیانگ سے شروع ہوکر پاکستان کے گوادر بندرگاہ تک جاتی ہے۔ تجارتی لحاظ سے یہ منصوبہ چین کو مشرقی بحیرہ جنوبی چین کے خطرناک سمندری راستوں سے بچاتا ہے اور پاکستان کو ایک اسٹریٹیجک تجارتی گزرگاہ میں تبدیل کرتا ہے۔

Cpec ii
یہ راہداری چین کے مغربی صوبے سنکیانگ سے شروع ہوکر پاکستان کے گوادر بندرگاہ تک جاتی ہے۔ (فوٹو: گوگل)

پاکستان کے لیے یہ منصوبہ صرف انفراسٹرکچر نہیں، بلکہ عالمی تجارتی نیٹ ورکس کا مرکز بننے کا موقع ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری اقتصادی، سیاسی اور سیکیورٹی بنیادیں اتنی مضبوط ہیں کہ ہم اس بڑے منصوبے کو سنبھال سکیں؟

سی پیک کے تحت اب تک کئی بڑے منصوبے مکمل یا زیرِتعمیر ہیں۔ گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے، کروٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، حویلی بہادر شاہ پاور پلانٹ، لاہور-اورنج لائن ٹرین اور موٹروے نیٹ ورکس ایسے اقدامات ہیں، جنہیں حکومت ترقی کا چہرہ بنا کر پیش کرتی ہے۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ غالب طلال چانڈیونے کہا ہے کہ سی پیک کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری سے انکار ممکن نہیں، لیکن ترقی اس وقت متوازن ہوگی، جب قانون، عدل اور بنیادی سہولیات کا دائرہ بھی ان علاقوں تک پھیلے گا جہاں سے یہ راہداری گزرتی ہے۔ صرف سڑکیں کافی نہیں، انسانی ترقی بھی اتنی ہی اہم ہے۔

حکومت کے مطابق سی پیک کے تحت پاکستان میں 20 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) اور ’اسکلز فار آل‘جیسے پروگرامز سے نوجوانوں کو تکنیکی تربیت دی جا رہی ہے تاکہ انہیں جدید مارکیٹ سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ جمال جعفر کا کہنا تھا کہ اگر روزگار کے مواقع مقامی نوجوانوں کو نہیں دیے گئے، اگر مہارت کی منتقلی صرف کاغذوں میں رہ گئی تو پھر یہ منصوبہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں کے فائدے کا ذریعہ بنے گا۔ سی پیک کی کامیابی مقامی شرکت اور شفافیت سے جڑی ہے۔

Cpec iii
اگر روزگار کے مواقع مقامی نوجوانوں کو نہیں دیے گئے۔ (فوٹو: گوگل)

سی پیک کے مخالفین کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ شفافیت کے فقدان، قرضوں کے بوجھ اور خودمختاری پر سوالات کھڑے کرتا ہے۔ چینی کمپنیوں کو ملنے والے ٹھیکے، چینی ورکرز کی اکثریت اور معاہدوں کی خفیہ نوعیت عوامی اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔

بلوچستان میں سیکیورٹی خدشات اب بھی برقرار ہیں اور سی پیک سے وابستہ کئی منصوبے ماضی میں حملوں کی زد میں آ چکے ہیں۔

سی پیک کے بارے میں عوامی رائے منقسم ہے۔ کچھ لوگ اسے خوشحالی کی کنجی سمجھتے ہیں، تو کچھ اس میں محرومی اور نابرابری کا عنصر دیکھتے ہیں۔ گوادر میں پانی، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل اب بھی موجود ہیں۔

گوادر کے ایک مقامی شخص نے کہا ہے کہ سی پیک ہمارے لیے کیا لایا؟ نہ پانی، نہ بجلی، نہ تعلیم۔ گوادر اب بھی وہیں کا وہیں ہے، فائدہ شاید کسی اور کو ہوا ہے۔

سی پیک صرف سڑکوں کا جال نہیں، بلکہ پاکستان کو چین کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی، ماحول دوست توانائی، سیاحت اور زراعت میں ترقی کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔

اگر حکومت نے پائیدار ترقی، شفاف پالیسی سازی اور مقامی شمولیت کو ترجیح دی، تو سی پیک واقعی گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔

Cpec iv
گوادر میں پانی، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل اب بھی موجود ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

ایڈووکیٹ جعفر جمال مزید کہتے ہیں کہ ہمیں اب صرف تعمیرات پر نہیں، بلکہ شراکت داری کے ماڈلز، ماحولیاتی اثرات اور مقامی کاروبار کی شمولیت پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ بصورتِ دیگر یہ ایک چینی منصوبہ کہلائے گا، پاکستانی منصوبہ نہیں۔

اگر ہم سی پیک کو ایک کامیاب منصوبہ بنانا چاہتے ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ شفافیت، جوابدہی اور عوامی شراکت داری کو یقینی بنائے۔ علاقائی تعاون کو فروغ دے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط مضبوط کرے اور مقامی کمیونٹیز کو فیصلوں کا حصہ بنائے۔

ایڈووکیٹ غالب چانڈیو  کہتے ہیں کہ سی پیک کو سیاست سے ہٹ کر ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا جائے۔ جب تک منصوبے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہے گا، اس کی حقیقی صلاحیت محدود ہی رہے گی۔

سی پیک اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے، جہاں سے یا تو ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں یا پھر غیر مساوی ترقی، قرضوں کے بوجھ اور سیاسی بے یقینی کی دلدل میں پھنس سکتے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی اقتصادی ترقی کے لیے ایک واضح، شفاف اور جامع حکمت عملی اپنائے تاکہ سی پیک محض ایک خواب نہ رہے بلکہ ایک حقیقت بن کر ابھرے جو ہر پاکستانی کی زندگی میں بہتری لائے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس