Follw Us on:

’تحریک انصاف جماعت نہیں ایک ’کیفیت‘ ہے‘

اظہر تھراج
اظہر تھراج
Blog pti

دانشوروں کی محفل میں یہ جملہ سنا تو میں چونک گیا،یہ اس وقت کی بات ہے جب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کیلئے رواں دواں تھے تو وفاق اور پنجاب ان کو روکنے کی کوشش کررہا تھا،علی امین گنڈاپور اپنے مقاصد میں تو کامیاب نہ رہے اور خوساختہ’اغواء‘کے بعد کے پی اسمبلی میں خوب گرجے اور گرجتے رہے۔ 

اب دانش بھی سیاست کی دھول میں کہیں کھو گئی ہے مگر جو نیوٹرل ہیں وہ ریاست کو  مقدم رکھتے ہیں اور سیاست ان کیلئے ثانوی چیز ہے،پی ٹی آئی کے حامی اس بات پر بضد تھے کہ انقلاب آرہا ہے اور مخالف دانشور قائل کرنے کی کوشش کررہے تھےکہ یہ محض ہوا کا بگولہ ہے۔

وہی ہوا جس کا ڈرتھا۔ سڑکوں پر جوش و جوش کم ہوا تو نعرے بھی ماند پڑ گئے،سوشل میڈیا پر چلے’انقلاب  انقلاب‘ کے ٹرینڈز ختم ہوتے گئے،اب تو ’ہم کوئی غلام ہیں‘ کا نعرہ بھی بدل چکا اور Absolutely Not بھی کہیں کھوگیا ہے۔اب تو ہر جگہ ایک ہی نعرہ ہے’ٹرمپ زندہ باد‘۔امریکا مردہ بادکے نعرے لگانے والے اب اسی امریکا سے امیدیں باندھ رہے  ہیں اور کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ ہی مرشد کو واپس لائیں گے‘۔

 عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے کو بہترین دوست قرار دیتے رہے ہیں،عمران خان، ڈونلڈ ٹرمپ سے اِس قدر متاثر تھے کہ وہ اپنے دور حکومت میں دورہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وطن لوٹے تو اِن کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں امریکہ سے ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں ۔پھر اِسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اورعمران خان کی شخصیات کی بات کریں تو دونوں میں بہت سی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھیں تو اُن کی شخصیت میں خود پسندی اور انا اور جارحانہ پن پایا جاتا ہے ۔ٹھیک ویسے ہی بانی پی ٹی آئی کے بارے میں بھی یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ انا پرست اور جارحانہ انداز کے مالک ہیں جو اپنے مخالفین کیخلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں، پھر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح عمران خان کو بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں قیمتی گھڑی سمیت خطیر مالیت کے غیر ملکی تحائف ظاہر نہ کرنے پر 5 سال کیلئے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے نااہل قرار دیا جاچکا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی دور ِصدارت میں ملنے والے غیر ملکی تحائف ظاہر نہ کرنے کے مقدمے کا سامنا رہا ہے، عمران خان 9 مئی کو اپنے حامیوں کو عسکری تنصیبات پر حملے پر اُکسانے جیسے سنگین مقدمات کا بھی عدالتوں میں سامنا کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: کھیت اجڑ گئے، کسان رو رہے ہیں، مریم سرکار کہاں ہے؟

 بانی پی ٹی آئی جی ایچ کیو سمیت دیگر عسکری تنصیبات پر حملوں ، بغاوت کی منصوبہ بندی کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جاتے ہیں اور عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔  اِسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو 6 جنوری سنہ 2021 کو یو ایس کیپیٹل ہل پر حملے کے لیے لوگوں کو اکسانے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔اِسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان یوٹرن لینے کی مماثلت بھی پائی جاتی ہے جبکہ دونوں کی نجی زندگی خواتین کے حوالے سے اسکینڈلز اور تنازعات کا شکار رہی ہے۔پھر ٹرمپ پر انتخابی مہم چلانے کے دوران دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔

پھر اِسی طرح بانی پی ٹی آئی پر ایک ریلی کے دوران قاتلانہ حملہ ہوا ۔لیکن اِن قاتلانہ حملوں میں دونوں رہنما صرف زخمی ہوئے اور اُن کی جان محفوظ رہی، صدارتی انتخابات کی جیت پر بات کی جائے تو سوشل میڈیا نے ٹرمپ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ،اسی طرح عمران خان بھی مقبولیت اور جیت کا کریڈٹ سوشل میڈیا کو دیتے رہے ہیں،عمران خان جو نعرہ اور سمت دیتے ہیں سوشل میڈیا پر ان کے فالورز اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے فالوورز ’بلائنڈ لورز‘ ہیں جو  اپنے قائد کےجھوٹ کو بھی سچ مانتے ہیں،یہی وہ چیز جو ’تحریک انصاف ایک فرقہ ہے‘جیسے جملوں کو تقویت دیتی ہے مگر میں اس کو نہیں مانتا۔

ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بارامریکی صدربن کرشاید اپنے ’دوست‘ کو بھول گئے ہیں کیونکہ وہ اس وقت حکومت پاکستان کے گن گاتے پائے جاتے ہیں، ٹرمپ کی اس ’بھول‘ پر عمران خان کے فالوورز کچھ بولتے نہیں مگر مزید غلط فہمیوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس وقت ایک اور تھیوری زیر گردش ہے کہ عصرحاضر کے حکمرانوں پر’غداری‘ کا مقدمہ ہوگا، یہ سب جیل جائیں گے اور خان صاحب باہر آئیں گے۔ اس کے پیچھے یہ منطق بتائی جاتی ہے کہ انڈیا کے خلاف پاکستان نے جو کیا وہ محض ’سوشل میڈیا‘ مہم تھی۔ 

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان صاحب اپنی پارٹی کے چیئرمین تو رہے نہیں ، اب انہوں نے اپنے آپ کو ’پیٹرن انچیف‘ قرار دے دیا ہے، جس کی سوشل میڈیا پر خوب بھد اڑائی جارہی ہے ۔

انہی پیٹرن انچیف نے جیل سے اپنی ’رہائی‘ کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے، یہ احتجاج پہلے سے مختلف ہوگا، اب اسلام آباد آنے کے بجائے شہر شہر میں مظاہرے کیے جائیں گے، کارکنوں کو فعال کیا جائے گا۔ اب یہ احتجاج تحریک بنے گا یا پھرآخری سانسیں لیتی پی ٹی آئی کی سیاسی موت بنے گا؟۔ اس کا فیصلہ وقت کرے گا کیونکہ نہ تو وقت عمران خان کے ساتھ ہے اور نہ حالات۔ اب مقبولیت بھی وہ نہیں رہی جو کبھی ’سہولتکاروں‘ کے ذریعے مہیا تھی۔ مبین خیرآبادی نے شاید خان صاحب کے فالوورز کی ہی کیفیت کی بات کی تھی جس میں وہ مبتلا ہیں 

کیفیت ہی کیفیت میں ہم کہاں تک آ گئے

بے خودی وہ تھی کہ ان کے آستاں تک آ گئے

وقت کی رو میں بہے تھے جانے کس انداز میں

یہ خبر بھی ہو نہ پائی ہم کہاں تک آ گئے

اظہر تھراج

اظہر تھراج

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس