لی جے میونگ جنوبی کوریا کے انتخابات جیت کر ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے غربت میں بچپن گزارا اور عدم مساوات و بدعنوانی کے خلاف لڑتے ہوئے ایک نمایاں لبرل سیاست دان کے طور پر شہرت حاصل کی۔
انتخابات سے پہلے ملک سیاسی طور پر ایک شدید غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا تھا، جس کا آغاز یون سک یول کی برطرفی سے ہوا۔ یون ایک قدامت پسند صدر تھے، دسمبر میں مارشل لا کے مختصر اور متنازع نفاذ کے بعد اقتدار سے ہٹا دیے گئے تھے۔
60 سالہ لی ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار تھے اور اب پانچ سالہ مدت کے لیے ملک کی قیادت سنبھالیں گے۔ ان کی جیت کو قدامت پسندوں کے خلاف عوامی ردعمل کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے، خاص طور پر مارشل لا کے واقعات کے بعد سے ملک میں غم و غصے کی لہر موجود تھی۔
یہ بھی پڑھیں: مناسکِ حج کا آغاز ہوگیا، منیٰ میں عازمین کی آمد جاری
اگرچہ لی کے بارے میں یہ خدشات پائے جاتے رہے ہیں کہ وہ چین اور شمالی کوریا کے ساتھ نرم رویہ رکھتے ہیں اور امریکا و جاپان سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار اس بات پر زور دیا کہ جنوبی کوریا اور امریکا کا اتحاد ان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔

لی کو عالمی سطح پر چند بڑے چیلنجز کا سامنا ہو گا، جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت ٹیرف پالیسیوں کا دباؤ اور شمالی کوریا کا مسلسل ابھرتا ہوا جوہری پروگرام شامل ہیں۔ لیکن مبصرین کا ماننا ہے کہ خواہ کوئی بھی صدر بنتا، ان مسائل میں نمایاں بہتری کی توقع کم ہی تھی۔
منگل کے روز ہونے والے انتخابات میں 99 فیصد سے زائد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر یہ واضح ہو چکا تھا کہ لی کو 49.3 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں، جبکہ ان کے حریف کم مون سو صرف 41.3 فیصد ووٹ لے پائے۔ اس واضح فرق کے بعد کم نے عوامی طور پر شکست تسلیم کر لی اور لی کو مبارکباد دی، یہ کہتے ہوئے کہ وہ عوام کے فیصلے کو عاجزی سے قبول کرتے ہیں۔
فتح کے باضابطہ اعلان سے قبل ہی، لی سیول کی سڑکوں پر اپنے ہزاروں حامیوں کے سامنے نمودار ہوئے۔ انہوں نے اگرچہ باضابطہ جیت کا اعلان نہیں کیا، لیکن اپنی ترجیحات واضح کیں، جن میں معیشت کو بحال کرنا، شمالی کوریا کے ساتھ امن کی کوششوں کو بڑھانا، اور اندرونی سیاسی و سماجی تقسیم کو کم کرنا شامل ہے۔
لی نے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب اختلافات کے باوجود سب کو ایک ساتھ چلنا ہو گا، کیونکہ تمام شہری جمہوریہ کوریا کے برابر کے حصے دار ہیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس موقع کو ایک نئی شروعات کے طور پر لیں اور امید کے ساتھ مستقبل کی طرف بڑھیں۔