ایک خوفناک ہوائی حادثے نے آج 12 جون 2025 کو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جہاں ایئر انڈیا کی لندن جانے والی پرواز AI-171جو ایک بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر تھی، ٹیک آف کے فوری بعد میگھانی نگر کے رہائشی علاقے میں تباہ ہو گئی۔
اس حادثے میں 242 مسافروں اور عملے کے ارکان سوار تھے اور ابتدائی رپورٹس کے مطابق 200 سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے ہیں، جب کہ واحد شخص رمیش وشواش معجزانہ طور پر اس المناک حادثے میں زندہ بچ گیا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف انڈین ایوی ایشن کی تاریخ کا بھیانک ترین لمحات میں سے ایک ہے، بلکہ بوئنگ 787 کے سیفٹی ریکارڈ پر بھی سوالات اٹھا رہا ہے۔
بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر ایک جدید اور اعلیٰ تکنیکی صلاحیتوں والا طیارہ ہے، جو بوئنگ کمپنی نے تیار کیا ہے۔ یہ طیارہ اپنی بہترین ایندھن کی کارکردگی، مسافروں کی آرام دہ سہولیات اور ماحول دوست خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہے۔ حقائق کیا ہیں آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
اگر اس طیارے کی خصوصیات کی بات کی جائے تو اس میں سب سے پہلے اس کی ساخت اور موادہے۔ بوئنگ 787-8 کی ساخت میں تقریباً 50 فیصد کمپوزٹ مواد (جیسے کاربن فائبر) استعمال کیا گیا ہے، جو اسے ہلکی اور مضبوط بناتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایندھن کی کھپت 20-25 فیصد تک کم ہوتی ہے، جب کہ دیگر روایتی طیاروں کی نسبت کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی کمی ہوتی ہے۔
پھر آتی ہے صندوقوں کی گنجائش کی باری، اس طیارے میں بہت بڑے اوور ہیڈ لگا ج بکس (overhead luggage bins) ہوتے ہیں، جو مسافروں کے سامان کو باآسانی رکھنے کی سہولت دیتے ہیں۔

مسافروں کی صلاحیت کی بات کی جائے تو بوئنگ 787-8 میں عام طور پر 242 سے 256 مسافر سفر کر سکتے ہیں، جو مختلف ایئرلائنز کی ترتیب (configuration) پر منحصر ہے۔ اس میں بزنس کلاس اور اکنامی کلاس کے سیٹس شامل ہوتے ہیں۔
یہ طیارہ 13,529 کلومیٹر (7,305 نیوٹیکال میل) تک پرواز کر سکتا ہے اور اس کی عام کروزنگ رفتار 913 کلومیٹر فی گھنٹہ (490 ناٹ) ہے، جب کہ زیادہ سے زیادہ رفتار 954 کلومیٹر فی گھنٹہ (515 ناٹ) ہے۔
یہ طیارہ بڑے اور جدید ونڈوؤں کے ساتھ الیکٹرانک ڈمنگ سسٹم، جو روشنی کو کنٹرول کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس میں موجود ایل ای ڈی لائیٹنگ سسٹم کابین کے اندر روشنی کی شدت اور رنگ کو ایڈجسٹ کرتا ہے، خاص طور پر طویل پروازوں کے لیے جہاز رانی (jet lag) کو کم کرنے میں مددگار ہے۔
کم کیبن الٹوڈ (altitude) اور بہتر ہوا کی نمی (humidity) جو مسافروں کے آرام کو بڑھاتی ہے۔اندرونی شور کو 60 فیصد تک کم کرنے والے انجن، جو پرواز کے دوران سکون فراہم کرتے ہیں۔
بلا شبہ بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر ایک جدید اور اعلیٰ تکنیکی صلاحیتوں والا طیارہ ہے جو اپنی بہترین ایندھن کی کارکردگی اور مسافروں کے آرام کے لیے مشہور ہے۔ تاہم، اس کے پیچھے کی کہانی اتنی پُرامن نہیں، کیونکہ گزشتہ سال (2024) اس کی تیاری اور حفاظتی معیار سے متعلق ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ اس اسکینڈل نے بوئنگ کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا اور اس کی پیداواری پالیسیوں پر سوالات اٹھائے، جو اب بھی بحث کا موضوع ہیں۔
2024 میں بوئنگ کمپنی کے 787 ڈریم لائنر طیارے کی تیاری اور حفاظتی معیار پر سوال اٹھائے گئے، جب ایک سام سلیح پور، جو بوئنگ کے ایک کوالٹی انجینئر تھے، نے الزام لگایا کہ کمپنی نے پیداوار کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے تیاری کے عمل میں خطرناک شارٹ کٹس استعمال کیں۔
انہوں نے امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) کو اپنی شکایات جمع کرائیں، جس کے بعد اس معاملے کی تفتیش شروع ہوئی۔

سام سلیح پور نے دعویٰ کیا کہ 787 ڈریم لائنر کے فوسیج (جہاز کے جسم) کے حصوں کو جوڑنے میں ناقص طریقہ کار استعمال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فوسیج کے حصوں کے درمیان چھوٹے دراڑوں (گپس) کو درست طریقے سے نہیں بھرایا گیا، بلکہ انہیں زبردستی ملایا گیا، جس سے طویل مدت میں جہاز کے جوڑوں پر غیر معمولی دباؤ پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بوئنگ نے پیداوار کی رفتار بڑھانے کے لیے انجینئرز کو دباؤ دیا کہ وہ ناقص معائنہ شدہ کام کو منظور کریں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود دیکھا کہ ملازمین جہاز کے حصوں کو سیدھا کرنے کے لیے ان پر چھلانگ لگا رہے تھے، جو ایک غیر محفوظ عمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ خرابیاں طویل عرصے میں جہاز کی ساخت کو کمزور کر سکتی ہیں، جس سے پرواز کے دوران تباہ ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ 1,000 سے زائد 787 طیاروں میں یہ مسائل موجود ہو سکتے ہیں۔
فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے اس کے بعد بوئنگ کے خلاف تفتیش شروع کی، جس میں یہ جانچ پڑتال کی گئی کہ آیا کمپنی نے ضروری معائنوں کو نظر انداز کیا یا جھوٹے ریکارڈ بنائے۔ ایف اے اے نے بوئنگ کو ہدایت کی کہ وہ تمام 787 طیاروں کے معائنے کی منصوبہ بندی کرے، خاص طور پر ان حصوں کی جو فوسیج سے منسلک ہیں۔
بوئنگ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 787 ڈریم لائنر مکمل طور پر محفوظ ہے اور اس کی ساخت کی سالمیت کے بارے میں شکایات درست نہیں۔ کمپنی نے دعویٰ کیا کہ اس نے جامع ٹیسٹنگ اور معائنوں کے بعد جہاز کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے اور ان مسائل سے جہاز کی سروس کی زندگی متاثر نہیں ہوگی۔
اسی سال کے شروع میں، ایک الاسکا ایئرلائنز کے 737 میکس طیارے کے درمیان پرواز کے دوران ایک پنل اڑ گیا، جس نے بوئنگ کی حفاظتی پالیسیوں پر مزید سوالات اٹھائے۔

مارچ 2024 میں ایک اور وہسل بلوئر جان بارنیٹ، جنہوں نے 787 کی حفاظت پر خدشات اٹھائے تھے، کی خودکشی کی اطلاعات سامنے آئیں، جس نے اس معاملے کو مزید حساس بنا دیا۔
اکتوبر 2024 میں اٹلی میں بوئنگ کے 787 کے لیے سپلائرز پر الزام لگا کہ انہوں نے ناقص معیار کے ٹائٹینیم اور ایلومینیم حصے استعمال کیے، جس سے 6,000 سے زائد حصوں کو ضبط کر لیا گیا۔
بوئنگ کو 2024 کی پہلی سہ ماہی میں 355 ملین ڈالر کا نقصان ہوا اور اس کی نقد رقم میں 4 بلین ڈالر کی کمی ہوئی۔ اسکینڈل کی خبروں کے بعد بوئنگ کے شئیرز میں کمی دیکھی گئی اور اس کی مارکیٹ قدر میں نمایاں کمی آئی۔
اس اسکینڈل نے عوام اور ایئرلائنز کے درمیان بوئنگ کے اعتماد کو متاثر کیا، خاص طور پر اس کے گزشتہ 737 میکس کریشز (2018-2019) کے تناظر میں۔
گزشتہ سال کا بوئنگ 787 اسکینڈل کمپنی کی پیداوار کے معیارات اور حفاظتی ثقافت پر گہرے سوالات اٹھاتا ہے۔ وٹیل بلوئرز کی شکایات اور ایف اے اے کی تفتیش نے اس بات کی نشاندہی کی کہ بوئنگ کو اپنی پیداوار کے عمل کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ بوئنگ نے اپنی پوزیشن کا دفاع کیا، لیکن یہ واقعات کمپنی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔
ایئر انڈیا نے بوئنگ 787-8 کو 2014 میں اپنی سروس میں شامل کیا۔ اس میں 256 نشستوں کی گنجائش ہے، جن میں 18 بزنس کلاس اور 238 اکنامی کلاس سیٹس شامل ہیں۔ یہ طیارہ طویل فاصلے کی بین الاقوامی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسے کہ لندن، نیویارک، اور دیگر اہم مقامات۔
اگر بات کی جائے اس کی لمبائی کی تو وہ 56.7 میٹر، اس کی چوڑائی (ونگ اسپین): 60 میٹر، جب کہ اس کی اونچائی 16.9 میٹر ہے اور اگر انجن کی بات کی جائے تو وہ رولز رائس ٹرینٹ 1000 یا جنرل الیکٹرک GEnx-1B
بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر کو اپنی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے “ڈریم لائنر” کا نام دیا گیا، جو مسافروں کو ایک خواب جیسا تجربہ فراہم کرتا ہے۔ یہ طیارہ پہلی بار 2011 میں کمرشل سروس میں آیا اور اب تک دنیا بھر کی ایئرلائنز اسے استعمال کر رہی ہیں۔

بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر ایک جدید اور محفوظ سمجھا جانے والا طیارہ ہے، لیکن 12 جون 2025 کو ایئر انڈیا کی پرواز AI171 (رجسٹری نمبر VT-ANB) نے احمد آباد سے لندن گیٹ وِک جانے کے دوران ٹیک آف کے فوری بعد میگھانی نگر کے قریب حادثہ کا شکار ہو گیا۔ یہ طیارہ 2014 میں ایئر انڈیا کے بیڑے کا حصہ بنا تھا اور اس میں 256 مسافر سوار تھے (18 بزنس کلاس اور 238 اکنامی کلاس)۔ حادثے میں 242 افراد سوار تھے، جن میں مسافر اور عملے کے ارکان شامل تھے۔
حادثہ کب اور کیوں ہوا؟
یہ حادثہ 12 جون 2025 کو دوپہر کے وقت پیش آیا، جب طیارہ سردار ولبھ بھائی پٹیل انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے کے چند منٹ بعد گر کر تباہ ہو گیا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق،پائلٹ نے ٹیک آف کے فوراً بعد کنٹرول ٹاور کو ہائیڈرولک سسٹم کی ناکامی (hydraulic system failure) کی اطلاع دی، جو طیارے کے کنٹرول سرفیسز کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ممکنہ طور پر دونوں انجنوں میں طاقت کا نقصان (مثلاً پرندوں سے ٹکراؤ یا انجن آئسنگ) بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
طیارہ صرف 625 فٹ کی بلندی تک پہنچا اور پھر تیزی سے نیچے آیا، جس کے دوران پائلٹ نے میڈے کال (Mayday call) کی، جو شدید خرابی یا پائلٹ کے دباؤ کی نشاندہی کرتی ہے۔
اگر حادثے کے ممکنہ اسباب کی بات کی جائے تو اس میں سب سے پہلے تکنیکی خرابی ہے، جو کہ ہائیڈرولک سسٹم کی ناکامی یا انجن کی ناکامی ہے جو طویل پرواز کے لیے مکمل ایندھن لوڈ کی وجہ سے پیچیدگی کو بڑھا سکتی ہے۔اگرچہ ابھی تصدیق نہیں، لیکن پائلٹ کے فیصلوں (جیسے خرابی کے جواب میں تاخیر) پر غور کیا جا رہا ہے۔پرندوں سے ٹکراؤ یا فضائی رکاوٹوں کا امکان بھی زیر بحث ہے۔
انڈیا کی ایئر کرافٹ ایکسڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو (AAIB) نے فوری طور پر تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ طیارے کا بلیک باکس (فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر) برآمد کر لیا گیا ہے، جن کی جانچ سے حتمی وجوہات سامنے آئیں گی۔ ابتدائی طور پر تکنیکی خرابی، پائلٹ کی غلطی یا دیگر عوامل پر توجہ دی جا رہی ہے، لیکن ابھی کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا۔
حادثے کی خبر کے بعد عالمی اسٹاک مارکیٹس میں بوئنگ کمپنی کے شیئرز میں کمی کا رجحان دیکھا گیا۔ 12 جون 2025 کی شام تک، ابتدائی رپورٹس کے مطابق بوئنگ کے شیئرز میں 2-3 فیصد کی گراوٹ ہوئی، کیونکہ سرمایہ کاروں میں کمپنی کے طیاروں کی حفاظت پر شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں۔ تاہم، یہ اتار چڑھاؤ مختصر مدت کا ہو سکتا ہے، جب تک کہ تحقیقات مکمل نہ ہو جائیں۔

ایئر انڈیا کے مالک ادارے (Air India Limited) کے شیئرز میں بھی معمولی کمی دیکھی گئی، خاص طور پر انویسٹرز کی طرف سے حفاظتی اقدامات اور مالی نقصانات کے خدشات کے باعث۔ لیکن اسٹاک مارکیٹ کا مجموعی رجحان ابھی مستحکم دکھائی دیتا ہے، کیونکہ حادثے کی نوعیت کی واضح تفصیلات سامنے آنے تک بڑے اتار چڑھاؤ کی توقع نہیں۔
ایوی ایشن سیکٹر کے دیگر بڑے کھلاڑیوں (جیسے ایئربس) کے شیئرز پر بھی اس کا معمولی اثر پڑا، لیکن اسٹاک مارکیٹ کا عمومی رجحان 12 جون 2025 کی شام تک مستحکم رہا۔
سوشل میڈیا پر اس حادثے پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کچھ صارفین بوئنگ 787-8 کی حفاظت پر سوالات اٹھا رہے ہیں، حالانکہ یہ طیارہ اپنے ریکارڈ کے لحاظ سے محفوظ سمجھا جاتا رہا ہے۔
اس سارے تناظر کو دیکھتے ہوئے، بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر کا احمد آباد حادثہ (12 جون 2025) نہ صرف ایئر انڈیا بلکہ عالمی ایوی ایشن انڈسٹری کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ گزشتہ برسوں کے اسکینڈلز، جیسے کہ جان بارنیٹ اور سام سلیح پور کے انکشافات اور اب اس تباہ کن واقعے نے بوئنگ کی حفاظتی پالیسیوں پر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ جب کہ ایف اے اے اور اے اے آئی بی کی تفتیشی ٹیمیں حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
خیال رہے کہ اس حادثے کے نتائج نہ صرف شئیر مارکیٹ پر اثرانداز ہوں گے بلکہ مسافروں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے بھی ایک طویل عمل طلب کریں گے۔ مستقبل میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ایئرلائنز اور مینوفیکچررز حفاظتی معیارات کو یقینی بنائیں تاکہ ایسی تباہی دوبارہ نہ ہو۔