ایران کے 86 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ان دنوں شدید دباؤ اور تنہائی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں، کیونکہ اسرائیلی فضائی حملوں میں ان کے متعدد قریبی فوجی اور سیکیورٹی مشیر ہلاک ہو چکے ہیں۔
عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق حالیہ دنوں میں ہلاک ہونے والے افراد میں پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کے اہم ترین کمانڈر اور خامنہ ای کے معتمد مشیر شامل ہیں، جن میں سپاہِ پاسداران کے سربراہ حسین سلامی، ایرو اسپیس ڈویژن کے سربراہ اور بیلسٹک میزائل پروگرام کے نگران امیر علی حاجی زادہ اور انٹیلیجنس چیف محمد کاظمی شامل ہیں۔
یہ تمام شخصیات خامنہ ای کے اُس قریبی حلقے کا حصہ تھیں، جو تقریباً 15 سے 20 مشیروں پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں اعلیٰ فوجی افسران، علما اور سیاست دان شامل ہیں۔ یہ مشاورتی گروپ عموماً خامنہ ای کے دفتر کی جانب سے بلائے جانے پر تہران میں واقع ان کی رہائش گاہ پر اہم فیصلوں کے لیے مشاورت کرتا ہے۔
عالمی خبررساں ادارے کے مطابق ان مشیروں کی بنیادی پہچان سپریم لیڈر اور اسلامی جمہوریہ کے نظریے کے ساتھ غیر متزلزل وفاداری ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای، جو 1979ء کے انقلاب سے قبل قید کاٹ چکے ہیں اور 1981ء میں بم دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد 1989ء میں رہبرِ اعلیٰ بنے، ایران کے اسلامی نظام حکومت کے سخت ترین محافظ ہیں اور مغرب پر شدید عدم اعتماد رکھتے ہیں۔
ایران کے نظام حکومت کے مطابق خامنہ ای کو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہونے کے ساتھ ساتھ جنگ کا اعلان کرنے، سینئر فوجی اور عدالتی عہدیداران کو مقرر یا معزول کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔

واضح رہے کہ خامنہ ای اپنی مشاورت میں وسیع آراء سنتے ہیں، اضافی معلومات لیتے ہیں لیکن حتمی فیصلہ خود کرتے ہیں۔ ایک قریبی ذریعے نے رائٹرز کو بتایا کہ دو باتیں خامنہ ای کے بارے میں کہی جا سکتی ہیں، ایک یہ کہ وہ انتہائی ضدی ہیں، لیکن ساتھ ہی بے حد محتاط بھی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ دہائیوں سے اقتدار میں ہیں۔ خامنہ ای ہمیشہ فیصلے کرتے وقت نظام کی بقاء کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔
خامنہ ای کے صاحبزادے سید موجتبا خامنہ ای گزشتہ دو دہائیوں میں اندرونی فیصلہ سازی میں مرکزی کردار حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ وہ مختلف اداروں، گروپوں اور شخصیات کے درمیان رابطہ کاری کے اہم فریضے انجام دے رہے ہیں اور سپاہ پاسداران سے قریبی تعلقات کی وجہ سے سیاسی اور سیکیورٹی اداروں میں خاصی رسائی رکھتے ہیں۔
باوجود اس کے کہ کئی اہم عسکری مشیر اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں، سپریم لیڈر کے کئی قریبی اور بااثر سیاسی و سفارتی مشیر بدستور اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جن میں علی اصغر حجازی شامل ہیں، جوکہ دفتر رہبر میں سیاسی و سیکیورٹی امور کے نائب ہیں اور ایران کے طاقتور ترین انٹیلیجنس افسر سمجھے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ جی سیون اجلاس چھوڑ کر واشنگٹن پہنچ گئے: ’ہم جنگ بندی سے بہتر کی تلاش میں ہیں‘
ان کے علاوہ علی اکبر ولایتی، کمال خرازی (سابق وزرائے خارجہ) اور علی لاریجانی (سابق اسپیکر قومی اسمبلی) خارجہ و داخلی پالیسی پر بااعتماد مشیر ہیں۔
سپریم لیڈر کے تحت پاسدارانِ انقلاب ایران کی داخلی سلامتی اور علاقائی پالیسی کا مرکزی ستون بن چکی ہے۔ اگرچہ ایران کی روایتی فوج وزارتِ دفاع کے ماتحت ہے، لیکن سپاہِ پاسداران براہ راست خامنہ ای کو جوابدہ ہے اور جدید ترین اسلحہ ان کے پاس ہے۔

خیال رہے کہ ایران کے “محورِ مزاحمت” کو بھی اسرائیلی حملوں میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ سپریم لیڈر کے قریبی سمجھے جانے والے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ گزشتہ سال ستمبر میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے، جب کہ شام کے صدر بشار الاسد کو دسمبر میں باغیوں نے معزول کر دیا۔
ان نقصانات نے نہ صرف ایران کی علاقائی حکمت عملی کو جھٹکا دیا ہے بلکہ خامنہ ای کو اندرونِ ملک ایک خطرناک تنہائی سے دوچار کر دیا ہے، ایک ایسے وقت میں جب وہ اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کے شاید سب سے سنگین دوراہے پر کھڑے ہیں۔