Follw Us on:

ایران پر حملہ اور حوثیوں کا انتقام: تیل کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان کی معیشت پر کیسے اثرات ڈالے گا؟

افضل بلال
افضل بلال
Whatsapp image 2025 06 17 at 11.29.43 pm
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 4 سے 8 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: فائل)

مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے عالمی معیشت کو ایک نازک موڑ پر لا کر کھڑا کردیا ہے۔ پاکستان جیسے تیل درآمد کرنے والے ملک کے لیے یہ صورتحال ایک معاشی طوفان کا پیش خیمہ بن رہی ہے۔

چند ماہ قبل جب تیل کی قیمتیں 80 سے 100 ڈالر فی بیرل کے درمیان تھیں، پاکستان پہلے ہی اپنے زرمبادلہ کے ذخائر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نبردآزما تھا۔ لیکن اب ایران پر ممکنہ حملوں اور یمن کے حوثی باغیوں کے بحیرہ احمر میں جہازوں پر حملوں نے تیل کی قیمتوں کو 160 ڈالر فی بیرل تک پہنچا دیا ہے۔

عالمی تیل کی 20 فیصد ترسیل کے اہم راستے آبنائے ہرمز کے بند ہونے کے خدشات نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیا ہے۔ اس بحران نے پاکستان کی معیشت پر کئی گہرے سوالات اٹھائے ہیں جیسا کہ کیا ہم اس طوفان سے نمٹ سکتے ہیں؟ مہنگائی کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا؟ اور کیا یہ بحران ہمیں توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف دھکیل سکتا ہے؟

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے  ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد نے کہا ہے کہ جب تیل کی قیمتیں 160 ڈالر فی بیرل تک پہنچتی ہیں، تو ہر پانچ ڈالر کے اضافے سے پاکستان کا سالانہ درآمدی بل تقریباً 800 ملین سے ایک ارب ڈالر تک بڑھ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے مہنگائی براہ راست صارفین تک پہنچتی ہے، صنعتی اخراجات بڑھتے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گہرا ہوتا ہے اور روپیہ کمزور ہونے کا خطرہ  بھی بڑھ جاتا ہے۔

Israel iran iii
آبنائے ہرمز کے بند ہونے کے خدشات نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

 گزشتہ چند ہفتوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 4 سے 8 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا ہے، جس سے بازاروں میں آٹے، چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں۔

لاہور کے ایک گاڑی ڈرائیو امتیاز حسین نے کہا ہے کہ تیل مہنگا ہونے سے کرایہ بڑھانا پڑتا ہے، لیکن صارفین اسے برداشت نہیں کر سکتے،  ہمارا کاروبار بھی متاثر ہو رہا ہے۔

دھیان رہے کہ یہ بحران اس وقت شروع ہوا، جب ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ نے عالمی منڈیوں کو متزلزل کیا۔ حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں تیل بردار جہازوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جس سے آبنائے ہرمز کی بندش کا خطرہ بڑھ گیا۔ اگر یہ اہم گزرگاہ بند ہوتی ہے تو پاکستان جو اپنی تیل کی ضروریات کا بڑا حصہ خلیج سے پورا کرتا ہے، اس سے شدید متاثر ہوگا۔

ڈاکٹر شفیق احمد نے کہا ہے کہ ایسی صورتحال میں پاکستان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے سمندری راستوں کے ذریعے براہ راست فیول شپمنٹس بڑھانی ہوں گی یا پھر امریکا سے تیل کی درآمد پر غور کرنا ہوگا۔ لیکن طویل مدتی حل کے لیے مقامی ریفائنریز کی استعداد بڑھانا ضروری ہے تاکہ بیرونی انحصار کم ہو۔

مگر ان متبادل راستوں کی لاگت زیادہ ہے اور یہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی بوجھ ڈالے گی، جو پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔ تیل کی قیمتوں کا یہ طوفان صنعتی اور ٹرانسپورٹ سیکٹرز کو براہ راست متاثر کر رہا ہے۔

ڈاکٹر شفیق کے مطابق تیل مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ کی لاگت بڑھے گی، جس سے اشیائے خورونوش سے لے کر صنعتی مصنوعات تک ہر چیز کی قیمتیں بڑھیں گی۔ صنعتیں پیداواری لاگت بڑھنے سے عالمی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر پائیں گی اور یہ بوجھ بالآخر صارفین پر منتقل ہوگا۔

انہوں نے تجویز دی ہے کہ  حکومت فوری طور پر پٹرولیم لیوی کم کرے، میگا روڈ پراجیکٹس میں سبسڈی دے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو مضبوط کرے۔ مزید یہ کہ بڑے شہروں میں عوامی ٹرانسپورٹ کو بہتر کرنے سے ایندھن کی کھپت کم ہو سکتی ہے، لیکن لیوی کم کرنے سے حکومتی آمدنی متاثر ہوگی، جس سے مالیاتی خسارہ بڑھنے کا خطرہ ہے۔ اس خسارے کی بھرپائی کے لیے ڈیجیٹل ٹیکس کے نظام کو مضبوط کرنے اور غیر ضروری سبسڈیز ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

Petrol prices
حکومت فوری طور پر پٹرولیم لیوی کم کرے، میگا روڈ پراجیکٹس میں سبسڈی دے۔ (ڈان نیوز)

اس بحران نے پاکستان کے لیے قابل تجدید توانائی کی اہمیت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔ ماضی میں سولر اور ونڈ انرجی کے منصوبوں پر بات تو بہت ہوئی، لیکن عملی پیش رفت سست رہی۔

 ڈاکٹر شفیق کا کہنا ہے کہ اگر سولر اور ونڈ انرجی میں سرمایہ کاری کی جائے تو پاکستان 5 سے 7 سال میں تیل کی درآمد 10 سے 15 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں سولر پینلز پر ٹیکس نے اس شعبے کی ترقی کو روک دیا ہے۔ حکومت کو ٹیکس چھوٹ، سبسڈیز اور اسٹوریج انفراسٹرکچر پر توجہ دینی چاہیے تاکہ پائیدار توانائی کے ساتھ فوڈ سیکیورٹی کے اہداف بھی حاصل ہوں۔

واضح رہے کہ ماضی میں سولر پینلز کی تنصیب میں اضافہ ہوا تھا، لیکن ٹیکسوں نے اس رجحان کو سست کر دیا۔ اگر حکومت اب اس شعبے کو ترجیح دے تو یہ بحران ایک موقع میں بدل سکتا ہے۔

سفارتی محاذ پر پاکستان کو ایک مشکل توازن برقرار رکھنا ہے۔ ایران اس کا ہمسایہ ہے، جب کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دیرینہ شراکت دار ہیں۔

ماہرِ معاشیات نے تجویز دیتے ہوئے کہا ہے  کہ پاکستان کو ایران، سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ تیل اور گیس کی کریڈٹ لائنز کو فعال رکھنا چاہیے، تجارتی سہولیات بڑھانی چاہئیں اور توانائی کے بنیادی معاہدوں پر بھی زور دینا چاہیے۔

 انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سیاسی دباؤ سے بچتے ہوئے علاقائی امن و تجارت کا توازن برقرار رکھنا ہوگا۔ ماضی میں پاکستان نے خلیجی ممالک کے ساتھ تیل کی ترسیل کے معاہدوں سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن موجودہ بحران میں یہ سفارتی حکمت عملی زیادہ اہم ہوگئی ہے۔

Iran president ebrahim raisi
سفارتی محاذ پر پاکستان کو ایک مشکل توازن برقرار رکھنا ہے۔ (فوٹو: منٹ)

خیال رہے کہ یہ بحران پاکستان کے لیے ایک امتحان ہے۔ ماضی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے نے معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جیسے کہ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے دوران، جب تیل کی قیمتیں 140 ڈالر فی بیرل تک پہنچی تھیں۔ آج صورتحال اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، کیونکہ عالمی تنازعات کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی مالیاتی کمزوریوں سے بھی نبردآزما ہونا ہے۔

ڈاکٹر شفیق کا خیال ہے کہ فوری اقدامات جیسے پٹرولیم لیوی میں کمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری سے عوام کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے، لیکن طویل مدتی حل قابل تجدید توانائی اور سفارتی حکمت عملی میں مضمر ہے۔ اگر پاکستان اس موقع پر درست فیصلے کرے تو یہ بحران نہ صرف معاشی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ ایک پائیدار مستقبل کی بنیاد بھی رکھ سکتا ہے۔ بصورت دیگر، مہنگائی اور خسارے کا یہ طوفان معیشت کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔

دوسری جانب لاہور کی ایک گھریلو خاتون صائمہ بی بی نے کہا ہے کہ ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔ اگر حکومت نے کچھ نہ کیا تو ہمارا گھر چلانا مشکل ہو جائے گا۔

یہ بحران پاکستان کے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر فوری اور دور اندیش پالیسیاں نہ اپنائی گئیں تو مہنگائی کا یہ طوفان معیشت کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔ لیکن اگر قابل تجدید توانائی اور سفارتی حکمت عملی پر توجہ دی گئی تو شاید یہ بحران ایک نئے معاشی موڑ کا پیش خیمہ بن جائے۔ یہ وقت فیصلوں کا ہے، ہم یا تو اس طوفان میں ڈوب جائیں گے یا پھر اسے موقع میں بدل لیں گے۔

Author

افضل بلال

افضل بلال

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس