گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فائرنگ اور فضائی حملوں میں کم از کم 140 فلسطینی شہید ہوئے ہیں، بدھ کے روز ہونے والی شہیدوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو امدادی اشیاء کے حصول کے لیے جمع تھے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وسطی اور شمالی غزہ کے علاقوں، بشمول المغازی پناہ گزین کیمپ، زیتون محلہ اور غزہ سٹی میں گھروں پر فضائی حملوں سے 21 افراد شہید ہوئے، جب کہ جنوبی شہر خان یونس میں ایک کیمپ پر حملے میں پانچ افراد شہید ہوئے۔ مرکزی غزہ میں صلاح الدین شاہراہ پر امدادی ٹرکوں کے منتظر افراد پر فائرنگ سے مزید 14 افراد شہید ہوئے۔
اسرائیلی دفاعی افواج نے کہا ہے کہ وہ امداد کے منتظر افراد کی ہلاکت کی رپورٹس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ دیگر حملوں پر اس کا مؤقف ہے کہ وہ حماس کی عسکری صلاحیت کو ختم کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہی ہے اور شہریوں کو نشانہ بنانے سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق مئی کے آخر سے اب تک خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں 397 فلسطینی شہیداور تین ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
غزہ کے رہائشیوں نے شکوہ کیا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باعث غزہ کے حالات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ایک رہائشی عادل نے رائٹرز کو بتایا جو بمباری سے نہیں مرتا، وہ بھوک سے مر جاتا ہے۔ لوگ جان جوکھم میں ڈال کر خوراک لینے آتے ہیں اور وہیں مارے جاتے ہیں۔

امداد کی ترسیل اب اسرائیل و امریکا کے تعاون سے قائم غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے کی جا رہی ہے، جو نجی امریکی کمپنیوں کے تحت کام کر رہی ہے اور اسرائیلی افواج کے زیر نگرانی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل نے خوراک کے منتظر 59 فلسطینی شہید کردیے
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ امداد کی ترسیل جاری رکھے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امداد حماس تک نہ پہنچے، جب کہ حماس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین کے سربراہ فلپ لازارینی نے امداد کی موجودہ تقسیم کو “ایک شرمناک داغ اور اجتماعی انسانیت پر دھبہ” قرار دیا ہے۔
اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 1,200 اسرائیلی ہلاک اور 250 یرغمال بنائے گئے، جب کہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی کارروائیوں میں 55,600 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔