Follw Us on:

ذخیرہ اندوزی یا پھر حکومتی ناکامی، چینی کی بڑھتی قیمتوں کی اصل وجہ کیا ہے؟

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد
Whatsapp image 2025 06 21 at 12.30.39 am
چینی کی قیمتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ چینی جو کبھی 100 روپے فی کلو سے کم میں دستیاب تھی، اب 181 روپے فی کلو پر پہنچ چکی ہے۔

حکومت کی جانب سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے متعدد دعوے کیے گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کی لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی بلکہ حکومت نے اس میں اضافے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، پہلے چینی کو برآمد کرنے کی اجازت دی گئی اور اب کمی کی وجہ سے مہنگی کردی گئی ہے، جس کی وجہ سے عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

نجی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ مملکت حذیفہ رحمان نے کہا ہے کہ حکومت اسی صورت میں چینی کو برآمد کرنے کی اجازت دیتی ہے، جب ملز مالکان کی جانب سے کہا جاتا ہے ان کے پاس چینی اضافی مقدار میں موجود ہے۔ حکومت نے اس بار کوشش کی کہ گنے کی کاشت اس بار پہلے کی نسبت پہلے سے زیادہ ہو اور ایسا ہوا بھی لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیداوار وہ حاصل نہیں ہوپائی، جس کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

چینی کی قیمتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہے۔ ہر سال کرشنگ سیزن کے دوران چینی کی قیمت کم ہوتی ہے لیکن جون، جولائی کے مہینوں میں ذخیرہ اندوز چینی کو مارکیٹ سے غائب کر دیتے ہیں تاکہ مصنوعی قلت پیدا کی جا سکے اور قیمتیں بڑھائی جا سکیں۔ شوگر مافیا منظم طریقے سے چینی کو ذخیرہ کرکے زیادہ منافع کما رہا ہے، جب کہ عام صارفین اس مہنگائی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

مارکیٹ ذرائع کے مطابق بڑے گوداموں میں ہزاروں ٹن چینی ذخیرہ کی جاتی ہے، جب قیمت 120 سے 130 روپے فی کلو سے بڑھنا شروع ہوتی ہے تو یہ چینی دوبارہ مارکیٹ میں لائی جاتی ہے، جس سے منافع خوروں کو بھاری فائدہ ہوتا ہے۔

چینی کی بڑھتی قیمتوں کی ایک اور بڑی وجہ گنے کی کم پیداوار اور شوگر ملز کی پالیسی ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ترجمان وحید چوہدری کے مطابق ملک میں گنے کی پیداوار میں کمی بھی چینی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔ رواں سیزن میں کئی کاشتکاروں نے دوسرے فصلوں کی طرف رجحان بڑھا دیا کیونکہ انہیں گنے کی مناسب قیمت نہیں مل رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں چینی کی پیداوار کم رہی، جس نے مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا کیا۔

Sugar
ملز مالکان کی جانب سے کہا جاتا ہے ان کے پاس چینی اضافی مقدار میں موجود ہے۔ (فوٹو: فائل)

انہوں نے مزید کہا کہ شوگر ملز بھی کرشنگ سیزن کو تاخیر سے شروع کرتی ہیں تاکہ چینی کی قیمتیں پہلے سے زیادہ بڑھ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے حکومت کو شوگر ملز کی سرگرمیوں پر مزید نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

چینی کی برآمدات اور درآمدات پالیسی بھی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی کی برآمد کو محدود رکھتی، تو قیمتیں اتنی زیادہ نہ بڑھتیں۔

حذیفہ رحمان نے اعتراف کیا کہ اس وقت پاکستان کے پاکستان کے پاس 27 لاکھ ٹن کے چینی کے سٹاکس موجود ہیں مگر ذخیرہ اندوز چینی کو ذخیرہ کرلیتے ہیں اور سرمایہ کار طبقہ حکومت کو بلیک میل کرتا ہے جس کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے لیکن حکومت کی چیزوں کو لے کر اپنی ایک اسٹریٹیجی ہوتی ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چینی کی برآمد پر فوری پابندی لگا کر مقامی مارکیٹ میں چینی کی سپلائی کو بہتر بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

چینی کی قیمتوں پر عالمی منڈی اور ڈالر کی قیمت میں اتارچڑھاؤ کا بھی اثر پڑتا ہے۔ عالمی سطح پر چینی کی قیمت میں اضافہ اور ڈالر کی قیمت میں استحکام نہ ہونے کی وجہ سے درآمدی چینی مزید مہنگی ہو چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی چینی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دوسری جانب چینی کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہری کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ پشاور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ چینی کی بڑھتی قیمتوں سے ان کی ماہانہ اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ایک شہری کی شکایت ہے کہ اب تو چائے پینے کے لیے بھی دو بار سوچنا پڑتا ہے۔ پہلے سبزیاں مہنگی ہوئیں، اب چینی بھی پہنچ سے باہر ہے۔ آخر ہم جائیں تو جائیں کہاں؟

Sugar ii
اب تو چائے پینے کے لیے بھی دو بار سوچنا پڑتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

علاوہ ازیں گھریلو خواتین کا کہنا ہے کہ چینی کے بغیر ناشتہ مکمل نہیں ہوتا، بچوں کی روٹین خراب ہو رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ قیمتیں کم کرے تاکہ عام آدمی آسانی سے چینی خرید سکے۔

ادھر تاجروں کا مؤقف ہے کہ ہم بھی مہنگی چینی خرید کر بیچ رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور؟ اگر چینی سستی نہیں ہوگی، تو عوام کیسے سستی خریدیں گے؟

وزیرِ مملکت نے کہا ہے کہ پاکستان کو چینی درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے مگر حکومت اس بات کو یقینی بنارہی ہے کہ کسی بھی قسم کی ناخوشگوار صورتحال سے نپٹا جاسکے اور اسی لیے چینی کو درآمد کیا جارہا ہے، جس سے چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات عالمی منڈی میں قیمتوں کا بڑھنا، ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ اور موسمی حالات ہیں، جن پر حکومت کا براہ راست کنٹرول نہیں ہے۔

شوگر ملز مالکان کی تاخیری پالیسی اور ذخیرہ اندوز عناصر بھی قیمتوں میں اضافے کے ذمہ دار ہیں، جن کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ حکومت نے مختلف شہروں میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آپریشن کیے، لاکھوں ٹن چینی برآمد کی اور چینی کی برآمد پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے تاکہ مقامی مارکیٹ میں استحکام لایا جا سکے۔

حکومتی مؤقف ہے کہ رمضان کے دوران عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی پر سبسڈی فراہم کر رہی ہے اور سستا بازار اسکیم کے تحت کم قیمت پر چینی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاہم عوام کی شکایات برقرار ہیں کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی دستیاب ہی نہیں یا محدود مقدار میں دی جا رہی ہے، جب کہ عام بازار میں قیمتیں قابو سے باہر ہو چکی ہیں۔

رمضان میں چینی کی مانگ کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ افطار اور سحری میں شربت، چائے اور دیگر اشیاء میں اس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، جب کہ بازاروں میں مٹھائی، جوس اور دیگر مصنوعات کی تیاری میں بھی چینی کی کھپت بڑھنے سے قلت مزید سنگین ہو جاتی ہے۔

حکومتی مؤقف کے برعکس عوام کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات صرف دعوؤں تک محدود ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے چینی خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔

Sugarcane
رمضان میں چینی کی مانگ کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

چینی کے حالیہ بحران کی وجوہات میں ذخیرہ اندوزی، حکومتی پالیسیوں کی کمزوری اور عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا اتار چڑھاؤ شامل ہیں۔

شوگر مافیا کے خلاف کارروائیاں وقتی طور پر قیمتوں میں کمی لا سکتی ہیں لیکن مستقل استحکام کے لیے طویل مدتی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ چینی کی برآمدات پر عارضی پابندی، کسانوں کو بروقت ادائیگیاں اور منصفانہ قیمتوں کا تعین اس بحران کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر شفاف مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرائیں تو قیمتوں کو مستحکم رکھا جا سکتا ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے پالیسیوں میں تسلسل اور سخت عملدرآمد ناگزیر ہے

Author

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس