امریکی عسکری امور کے ماہر ڈین کالڈویل کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف اسرائیلی جنگ میں امریکا کی ممکنہ شمولیت صرف مالی ہی نہیں بلکہ، سفارتی اور عسکری نقصانات کا باعث بھی ہو گی۔
امریکی صحافی ٹکر کارلسن کے ساتھ گفتگو میں ڈین کالڈویل کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں خطے میں امریکی بیسز پر موجود فوجی ہی نہیں بلکہ مشرق وسطی کے پانیوں میں تعینات امریکی میرینز بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی فوج کی اصلاحات کا وہ پروگرام بھی متاثر ہو گا جس کے تحت میرینز کی خراب حال بیرکس کی مرمت سمیت بہت سے کام کرنے ہیں۔ امریکا کے ملوث ہونے کے بعد جو فنڈز اصلاحآت کے پروگرام پر خرچ ہونے ہیں وہ جنگ کے لیے استعمال ہوں گے جو اصلاحاتی پروگرام کی افادیت ختم کر سکتے ہیں۔
امریکی میرینز کور اور پینٹاگان کا حصہ رہنے والے کالڈویل نے انکشاف کیا کہ ان کی مختلف سطحوں پر موجود امریکی فورسز کے لوگوں سے جو بات ہوئی وہ بتاتی ہے کہ وہ ایسی صورتحال سے خوش نہیں بلکہ خوفزدہ ہیں۔ امریکی فورسز طویل عرصہ سے عراق، افغانستان، شام میں حالت جنگ میں ہیں۔ ایک اور جنگ کا نشانہ بننا ان کے لیے پریشان کن ہو گا۔
انہوں نے تصدیق کی کہ امریکی شمولیت کے بعد صرف بمباری تک بات محدود نہیں رہے گی۔ ایران کا ردعمل شدید اور مشکل ہو سکتا ہے جو خطے میں بڑی جنگ کا امکانات پیدا کر سکتا ہے۔
“اس میں عراق، شام، اسرائیل، خلیجی ممالک کے فوجی و سفارتی اہلکار، اور سیویلین بھی نشانے پر ہو سکتے ہیں۔ ایران اور اس کے حمایتی (جیسے حزب اللہ یا عراقی ملیشیائیں) امریکہ کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔”
کالڈ ویل کے مطابق“ہمارے ہوائی جہاز، بحری جہاز، اور فوجی اڈے شدید خطرے میں ہوں گے۔ اہلکاروں کی جانیں خطرے میں ہوں گی۔ خلیج، عراق اور شام میں موجود ہزاروں امریکی اہلکار ایک ممکنہ جنگ کی زد میں آ جائیں گے۔”
انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ ایک ایسی طویل مدتی جنگی مداخلت میں بدل سکتا ہے جو صرف بمباری تک محدود نہیں رہے گی؛ جوابی کارروائیاں امریکہ کو ایک طویل، غیر متوقع جنگ میں گھسیٹ سکتی ہیں — جیسے عراق اور افغانستان میں ہوا۔
ایران کے خلاف جنگ میں امریکی شمولیت کو انہوں نے وسیع مالی نقصان کا باعث قرار دیا۔ جنگی کارروائی، ہتھیار، لاجسٹکس، اہلکاروں کی تعیناتی، اور طویل مدتی جنگی ضروریات پر حکومت کو اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا پہلے ہی بڑے قرض کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسی مہمات مالی دباؤ میں مزید اضافہ کر سکتی ہیں۔ عالمی منڈیوں میں بے یقینی، تیل کی قیمتوں میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ — یہ سب امریکی معیشت کو متاثر کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ کی جانب سے نیتن یاہو یا دیگر اسرائیلیوں کی خواہش کے مطابق جنگ میں اترنا ان کے لیے سیاسی طور پر بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ امریکی فوجی ماہر کے مطابق مالی بوجھ کے باعث امریکی عوام میں حکومت کے خلاف مخالفت بڑھ سکتی ہے، جیسا کہ عراق جنگ کے دوران ہوا۔
ایران کا جواب اور خلیجی ممالک کا ردعمل کیا ہو گا؟
ٹکر کارلسن اور ڈین کالڈ ویل کے مطابق، اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو ایران کی جوابی حکمت عملی اور خلیجی ممالک کا ردعمل کچھ یوں متوقع ہے:
ایران خطے میں امریکی مفادات پر حملے کر سکتا ہے جو وہ خود بھی کرے گا اور اپنے اتحادیوں سے بھی کروائے گا۔ عراق، شام، لبنان (حزب اللہ)، اور یمن (حوثی) سے امریکی اڈے یا اثاثے نشانہ بن سکتے ہیں۔
سمندری راستوں میں خلل کا امکان ہو گا۔ ایران آبنائے ہرمز میں تیل کی ترسیل کو روکنے یا محدود کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، جس سے عالمی منڈی متاثر ہو گی۔
ایران امریکی انفراسٹرکچر، توانائی، یا مالیاتی نظام پر سائبر حملے کر سکتا ہے۔
خلیجی ممالک کا ردعمل
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور دیگر خلیجی ممالک ایران سے تصادم سے بچنے کی پالیسی پر گامزن ہیں، کیونکہ وہ اس وقت معیشت، سرمایہ کاری، اور اندرونی ترقی کو ترجیح دے رہے ہیں — جنگ ان کے لیے زہرِ قاتل ہوگی۔”
یہ ممالک امریکہ پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ کشیدگی کو کم کرے۔
خلیجی ممالک کسی ممکنہ حملے سے بچاؤ کے لیے دفاعی نظام کو متحرک کریں گے، لیکن غالباً وہ براہِ راست لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔
امریکی فوج کیا سوچ رہی ہے؟
ڈین کالڈ ویل نے انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ زیادہ تر امریکی فوجی ایران کے خلاف جنگ میں شمولیت کو ناپسند کرتے ہیں۔ امریکی فوجیوں میں جنگ سے اجتناب کی خواہش موجود ہے۔
کالڈ ویل، جو خود ایک سابق میرین ہیں، نے کہا کہ اکثر فوجی جنگ کو آخری حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ “فوجی سب سے پہلے لڑائی سے بچنے کی خواہش رکھتے ہیں… کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کی اصل قیمت کیا ہے۔”
کالڈ ویل کے مطابق امریکی فورسز ایران کے خلاف جنگ کو “غیر ضروری تنازع” تصور کرتے ہیں، کیونکہ ایران امریکا پر براہ راست حملہ نہیں کر رہا۔
انہیں خدشہ کہ یہ ایک اور ’لامتناہی جنگ‘ بن جائے گی۔ عراق اور افغانستان جیسے تجربات کے بعد، فوجی طبقہ نہیں چاہتا کہ امریکہ ایک اور طویل اور غیر واضح جنگ میں الجھ جائے۔
کالڈویل کے مطابق جو امریکی اہلکار عراق، شام یا خلیج میں تعینات ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ایران کے جوابی حملے میں وہ براہِ راست نشانہ بن سکتے ہیں۔