جون 2025 کا مہینہ دنیا کے لیے غیر معمولی تناؤ اور بے یقینی لے کر آیا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع اب ایک نئی نہج پر پہنچ چکا ہے،جو کہ اب امریکا کی مداخلت کے بعد خطرناک عالمی رُخ اختیار کر لیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر ایران کی اہم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جس سےاب یہ کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔
صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایران نے امریکی حملے کا جواب دینے کی ٹھان لی ہے، ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اعلان کیا ہے کہ امریکا اب اس نقصان کا خود ذمہ دار ہو گا اور وہ ہر قیمت پر اپنی خودمختاری کا دفاع کریں گے، چاہے اس کے لیے انہیں کسی حد تک جانا پڑے۔ اس موقع پر ایران کی اعلیٰ قیادت اور فوجی ادارے مکمل چوکنا ہو چکے ہیں اور تہران کے گرد دفاعی نظاموں کو مزید مستحکم کر دیا گیا ہے۔
ادھر اسرائیل میں ہنگامی حالات نافذ ہیں۔ ملک کے اہم شہروں میں سائرن کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور لوگ پناہ گاہوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ ایران کے میزائل حملوں نے تل ابیب اور حیفہ جیسے شہروں کو نشانہ بنایا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

ان واقعات کے بعد امریکی سیاست میں بھی ہلچل مچ گئی ہے۔ صدر ٹرمپ، جو اس وقت اپنی دوسری مدتِ صدارت میں ہیں، نے نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کو فوری طور پر “بے شرط سرینڈر” کرنا ہوگا، بصورت دیگر امریکا اپنی طاقت کے تمام آپشنز استعمال کرے گا۔ ان کے اس بیان نے امریکا کے اندر بھی شدید مخالفت پیدا کر دی ہے۔ کئی امریکی تجزیہ کار اور عوامی رہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ٹرمپ کی اشتعال انگیز پالیسی امریکا کو ایک اور طویل جنگ میں دھکیل سکتی ہے، جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے خطرناک ہوگی۔
صورتحال کو مزید الجھا دینے والی بات یہ ہے کہ روس اور چین نے امریکا کو کھلی وارننگ دے رکھی تھی اگر اس نے ایران پر حملہ کیا تو یہ علاقائی تنازع عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ان دونوں ممالک نے کہا تھاکہ ایران کو مکمل سفارتی حمایت حاصل ہے اور وہ اس کے خلاف کسی بھی یکطرفہ جارحیت کو برداشت نہیں کریں گے۔
پاکستان میں بھی اس بحران پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ پاکستان میٹرز نے تین ممتاز شخصیات سے گفتگو کی تاکہ اس بحران کے ممکنہ اثرات کا اندازہ لگایا جا سکے۔ سابق سفارت کار ڈاکٹر عائشہ حسین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف مشرقِ وسطیٰ کا نہیں بلکہ عالمی امن کا ہے۔ اگر ایران امریکا پر حملہ کرتا ہے تو یہ کشیدگی تیسری جنگ کی طرف چلی جائے گی، اورایک ایسے راستے پر چل نکلے گی جہاں سے واپسی ناممکن ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ عالمی سطح پر امن کی آواز بنے اور اسلامی دنیا کو متحد کرے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن سجاد اقبال نے کہا کہ ہمیں طاقت کے بجائے سفارت کاری پر یقین رکھنا چاہیے۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ جنگ کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ اگر عالمی برادری نے اب کردار ادا نہ کیا تو کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں پہلے ہی عوام جنگوں، غربت اور مہاجرت سے تنگ آ چکے ہیں، مزید تباہی سے صرف عالمی بحران جنم لے گا۔

ماہر معیشت فہد خان کا خیال ہے کہ اگر جنگ چھڑی تو پاکستان جیسے ممالک پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو لیں گی، مہنگائی مزید بڑھے گی اور ہماری معیشت پہلے ہی دگرگوں حالات میں ہے۔ اگر تیسری عالمی جنگ ہوئی، تو ہم معاشی طور پر سنبھلنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا کے حملے، ایران کا کتنا نقصان ہوا، آگے کیا ہو گا؟
یہ ساری صورتحال ایک ایسے لمحے پر آن پہنچی ہے جہاں چند غلط فیصلے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ سیاست اور ایران کی ضد، دونوں ہی دنیا کو ایک خوفناک مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں عالمی برادری، اقوام متحدہ اور تمام بڑے ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فوری اور مؤثر کردار ادا کریں۔ صرف طاقت کی زبان بولنا، نہ امریکا کے لیے درست ہے، نہ ایران کے لیے اور نہ ہی دنیا کے کسی اور ملک کے لیے۔
یہ وقت ہے جب دنیا کو پھر ایک بار امن کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر جنگ چھڑی تو صرف تہران یا واشنگٹن نہیں جلیں گے، اس کی چنگاریاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ جنگیں ہمیشہ نقصان کا سودا ہوتی ہیں اور اس سودے میں انسانیت ہمیشہ ہارتی ہے۔ اس بار اگر انسانیت کو بچانا ہے، تو فیصلے ہتھیاروں سے نہیں، دل و دماغ سے کرنے ہوں گے۔