کینیا میں بدھ کے روز حکومت مخالف مظاہروں کے دوران کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے. ان میں سے زیادہ تر کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کیا۔
یہ مظاہرے ایک نئے ٹیکس بل کے خلاف ہو رہے تھے، اور ان کا تعلق گزشتہ سال کے ان احتجاجوں کی یاد سے بھی تھا جن میں ساٹھ سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
مظاہروں کے دوران ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے۔ دارالحکومت نیروبی میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور پانی کی توپوں کا استعمال کیا۔

ایمنسٹی کینیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایرنگو ہوٹن نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ شام ساڑھے آٹھ بجے تک سولہ افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی تھی، جن میں سے کم از کم پانچ کو گولیاں ماری گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ معلومات ایمنسٹی، کینیا کے نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (کے این سی ایچ آر) اور دیگر عالمی اداروں سے حاصل کی گئیں۔
کے این سی ایچ آر نے پہلے بتایا تھا کہ ملک بھر سے آٹھ ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جن میں سب کو مبینہ طور پر گولیوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ ادارے کے مطابق ان مظاہروں کے دوران چار سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں مظاہرین، پولیس اہلکار اور صحافی شامل ہیں۔

ادارے نے پولیس کی بھاری تعیناتی اور طاقت کے غیر ضروری استعمال، بشمول ربڑ کی گولیوں، زندہ گولے اور پانی کی توپوں کے استعمال پر تحفظات کا اظہار کیا۔ انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اوور سائیٹ اتھارٹی (آئی پی او اے) کے مطابق کم از کم اکسٹھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
نیروبی کے مرکزی اسپتال کینیاٹا نیشنل ہسپتال کے مطابق درجنوں زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا، جن میں سے 107 افراد کا علاج کیا گیا اور ان میں زیادہ تر کو گولیوں سے زخم آئے تھے۔ تاہم، اس اسپتال میں کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں دی گئی۔
اس دوران قومی بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کینیا پاور کے مطابق، دارالحکومت میں ان کے ہیڈ کوارٹر پر گشت کے دوران ایک سکیورٹی گارڈ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

مظاہروں کے دوران، مقامی ٹی وی چینلز این ٹی وی اور کے ٹی این نے صدر کی سرکاری رہائش گاہ، سٹیٹ ہاؤس، کی جانب بڑھتے ہوئے مظاہرین کے مناظر نشر کیے، جس پر حکومت کی جانب سے براہ راست نشریات پر پابندی کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم نیروبی کی ایک عدالت نے اس حکم کو معطل کر دیا، جس کے بعد دونوں چینلز نے دوبارہ نشریات شروع کر دیں۔
یہ مظاہرے صرف ٹیکس بل کی مخالفت تک محدود نہیں تھے بلکہ عوام کی جانب سے حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر پائے جانے والے غصے اور عدم اعتماد کا اظہار بھی تھے۔ پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال اور مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔