امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے غزہ میں جاری جنگ کو آئندہ دو ہفتوں میں ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اسرائیلی اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ کال اس وقت ہوئی جب امریکا نے ایران پر حملہ کیا تھا۔ دونوں رہنماؤں نے اس گفتگو میں نہ صرف غزہ کی جنگ کے خاتمے بلکہ مستقبل کے سیاسی انتظامات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر داخلہ اور امریکا کی قائم مقام سفیر کے درمیان ملاقات: امید ہے کہ امریکی صدر غزہ جنگ بندی کرائیں گے، محسن نقوی
رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو اور ٹرمپ اس بات پر متفق ہوئے کہ جنگ کے بعد چار عرب ممالک، جن میں متحدہ عرب امارات اور مصر بھی شامل ہیں، غزہ میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی جگہ انتظامی کنٹرول سنبھالیں گے۔

حماس کی قیادت کو جلا وطن کیا جائے گا اور تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت وہ فلسطینی شہری جو غزہ سے نکلنا چاہتے ہیں، انہیں کچھ نامعلوم ممالک میں آباد کیا جائے گا۔
عرب ممالک نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی تعمیر نو میں صرف اسی صورت میں حصہ لیں گے جب اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو غزہ میں فعال کردار ادا کرنے کی اجازت دے گا۔ لیکن نیتن یاہو فلسطینی اتھارٹی کو کسی بھی قسم کا کردار دینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح، حماس کی قیادت نے بھی جلاوطنی کے مطالبات کو مستقل طور پر مسترد کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو اور ٹرمپ کے ساتھ اس گفتگو میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیلی اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر بھی موجود تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گفتگو جذباتی نوعیت کی تھی اور اس میں آنے والے ہفتوں میں تیز سیاسی پیش رفت پر زور دیا گیا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب اور شام اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں گے، اور ان کے نقش قدم پر دیگر مسلم ممالک بھی چلیں گے۔
اسرائیل، بظاہر، مستقبل میں دو ریاستی حل کی حمایت پر آمادگی ظاہر کرے گا، لیکن اس کی شرط یہ ہو گی کہ فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کی جائیں۔ اس کے علاوہ امریکا مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کرے گا۔
غزہ کی جنگ نے انسانی بحران کو شدید کر دیا ہے اور عالمی سطح پر اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ لیکن اس منصوبے پر کئی اعتراضات موجود ہیں۔ فلسطینی عوام کو فیصلوں میں شامل نہیں کیا جا رہا، حماس کی جلاوطنی ایک غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے، اور عرب دنیا کے عوام میں ان فیصلوں کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہو سکتا ہے۔
اگرچہ یہ منصوبہ خطے میں ایک نئی حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے، لیکن اس کے عملی نفاذ میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں اور سب سے بنیادی سوال یہی ہے کہ فلسطینی عوام کی مرضی اور خودمختاری کو کس حد تک اہمیت دی جائے گی۔