امریکی امیگریشن حکام نے لاس اینجلس میں دو ایرانی شہریوں کو حراست میں لے لیا، جنہیں قومی سلامتی کے خدشات کی بنیاد پر نشان زد کیا گیا تھا۔ گرفتار ہونے والے دونوں افراد حال ہی میں سیاسی پناہ کی درخواست دے چکے تھے اور فارسی زبان بولنے والے ایک مقامی چرچ سے وابستہ تھے۔
یہ واقعہ منگل کی صبح پیش آیا جب امیگریشن افسران نے جنوبی کیلیفورنیا میں واقع ایک رہائشی مکان پر کارروائی کی۔ چرچ کے پادری آرا توروسیان نے بتایا کہ انہیں دو ارکان کی جانب سے مدد کے لیے فون موصول ہوا جن کے گھر امیگریشن افسران موجود تھے۔ انہوں نے کہا، ’’جب میں ان کے گھر پہنچا تو وہاں وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متعدد اہلکار موجود تھے۔‘‘
پادری کے مطابق خاتون کو حراست میں لیتے وقت وہ گھبراہٹ کا شکار ہوئیں اور زمین پر گر پڑیں۔ انہوں نے ویڈیو بناتے ہوئے چیخ کر کہا کہ وہ بیمار ہے (911) پر کال کرو! آپ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟

ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی (ڈی ایچ ایس) نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ منگل کے روز لاس اینجلس میں دو ایرانی شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ ادارے کے مطابق خاتون کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں سے بعد ازاں انہیں فارغ کر کے امیگریشن تحویل میں واپس لے جایا گیا۔
یاد رہے کہ یہ واقعہ امریکی فضائیہ کی جانب سے ایران کے تین جوہری مراکز پر حملوں کے بعد پیش آیا۔
پادری توروسیان کے مطابق گرفتار افراد نے امریکا میں داخلے کے لیے سی بی پی ون نامی موبائل ایپ کے ذریعے پیشگی وقت لیا تھا، جو سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں متعارف کرائی گئی تھی تاکہ سرحد پار داخلہ باقاعدہ طریقے سے ممکن ہو۔ یہ نظام بعد میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بند کر دیا تھا۔

توروسیان نے بتایا کہ ان کی عبادت گاہ میں پچاس سے ساٹھ ارکان شامل ہیں، جن میں سے بیشتر دو سال سے کم عرصہ قبل امریکا آئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ مجھے اپنے کلیسا کے ارکان کو یہ کہنا پڑے گا کہ چرچ نہ آئیں۔ وہ خوفزدہ ہیں کچھ نے خود کو گھروں میں بند کر لیا ہے۔
توروسیان خود بھی قدرتی طور پر امریکی شہری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گرفتاری کا منظر ان کے لیے صدمہ خیز تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے دیکھا کہ ماسک پہنے ہوئے اہلکار ایک عورت کو زمین پر گرا رہے ہیں، تو مجھے لگا جیسے میں لاس اینجلس کی نہیں بلکہ تہران کی سڑک پر ہوں، انہوں نے مزید کہا۔
ایران اور امریکا کے درمیان سفارتی تعلقات کی غیر موجودگی کے باعث ایران اپنے شہریوں کو واپس قبول نہیں کرتا۔ تاہم، پیر کے روز امریکی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو یہ اجازت دی کہ وہ تارکین وطن کو ان کے اپنے ملک کے علاوہ کسی اور ملک بھی بے دخل کر سکتی ہے، چاہے انہیں وہاں خطرات لاحق ہوں۔
ڈی ایچ ایس کی جانب سے مزید کوئی تبصرہ جاری نہیں کیا گیا۔ اس مرحلے پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایران سے تعلق رکھنے والے دیگر پناہ گزینوں پر بھی ایسی ہی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔