Follw Us on:

خیبر پختونخوا میں ہرسال بارشوں، سیلاب سے اموات: ’کیا جان بچانا ہماری ریاست کی ترجیحات میں شامل نہیں؟‘

احسان خان
احسان خان
Swat incident
بارش کم، غفلت زیادہ: خیبر پختونخوا میں ہر سال سیلاب موت کیوں لاتا ہے؟فوٹو: سکرین گریپ)

خیبر پختونخوا حکومت بدلی ہے اور نہ ہی حالات بدلے ہیں، مگر کچھ بدلی ہے تو بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد ہے۔ اگست 2022 میں بروقت امداد نہ ملنے پر پانچ افراد جان کی بازی ہار گئے اور 2025 میں بھی ریسکیو کی حالت وہی ہے۔ دریائے سوات میں سیالکوٹ سے پکنک پر جانے والے ایک ہی خاندان کے درجن کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے۔

2010 کے تباہ کن سیلاب میں خیبر پختونخوا صوبے میں 1,156 افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ پورے ملک میں 1,985 جانوں کا ضیاع ہوا۔ پھر 2022 کے سیلاب نے پورے پاکستان میں 1,400 سے زائد جانیں لیں اور خیبر پختونخوا کو تقریباً 700 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ صوبے میں تقریباً 0.6 ملین لوگ متاثر ہوئے، 264 ہلاک، 237 زخمی اور 73 ہزار مکانات یا تو مکمل طور پر تباہ یا جزوی طور پر نقصان کا شکار ہوئے۔

اسی طرح 2024 کی موسمی بارشوں کے دوران صرف تین دنوں میں صوبے میں 24 افراد ہلاک ہوئے، جن میں چھتوں کے گرنے اور سیلاب زدہ علاقوں میں ڈوبنے کے واقعات شامل ہیں۔

سوات میں گزشتہ سالوں میں اس طرح کے بہت سے حادثات ہو چکے ہیں اور وقتی طور پر حکومت کی طرف سے دعوے کیے جاتے ہیں، مگر بعد میں کوئی خاص اقدامات نہیں کیے جاتے۔

سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ  اس حادثے میں بے بس لوگ مدد کے لیے پکارتے رہے، زندگی اور موت کی کشمکش میں امید لگائے بیٹھے رہے کہ شاید حکومت، شاید ضلعی انتظامیہ، شاید کوئی ہیلی کاپٹر انہیں بچانے آ جائے گا،مگر کوئی نہ آیا اور ریسکیو کے لیے نہ کوئی کشتی پہنچی، نہ کوئی ہیلی کاپٹر۔

اس حوالے سے سوات سے تعلق رکھنے والے ملٹی میڈیا جرنلسٹ ادیب یوسفزئی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوات ہمیشہ سے ہی پی ٹی آئی کا گڑھ رہا ہے۔ محمود خان، فضل حکیم اور دیگر اہم شخصیات کا تعلق اسی علاقے سے ہے، لیکن ماضی میں کوئی بڑا عملی اقدام نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان ہنگامی صورتحال سے بچنے کے لیے مستقل حل نکالا گیا ہے۔

Sawat2

ہر سال مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نہ صرف بڑے پیمانے پر مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں بلکہ متعدد بے قصور افراد کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں، یہ تسلسل اس بات کی علامت ہے کہ یہ صرف فطری آفات نہیں بلکہ ایک بار بار دہرا یا جانے والا انسانی المیہ بنتا جا رہا ہے۔

ادیب یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ہم اسے صرف “غیر معمولی” یا صرف “متوقع” صورتحال نہیں کہہ سکتے، میرے خیال میں یہ “غیر معمولی طور پر متوقع” صورتحال ہے۔ دنیا بھر میں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ یہ اچانک شروع نہیں ہوئیں، بلکہ پچھلے تین، چار، پانچ سالوں سے ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ موسموں میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ گرمیوں، سردیوں اور مون سون میں بھی غیر معمولی بارشیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، حالانکہ ہماری کاربن اخراج میں شراکت نہایت کم ہے، لیکن نقصان ہمیں سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔

این ڈی ایم اے خود تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان میں جدید فلڈ وارننگ سسٹم، ٹیلی میٹری یا جدید ریڈارز موجود نہیں، جس کے باعث وقت پر خطرے سے آگاہی ممکن نہیں۔ اس طرح کی صورتحال سے بچنے کے لیے مقامی لوگوں کو ایمرجنسی سرگرمیاں اور مشقیں کرانی چاہئیں۔

ادیب یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ریسکیو اور دیگر ایمرجنسی ادارے سالانہ مشقیں کرتے ہیں، اسکولوں میں جاتے ہیں، لیکن عملی صورتحال میں ان کا کردار کمزور نظر آتا ہے۔ اہلکار اکثر موجود ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس وسائل اور ٹیکنیکل آلات کی شدید کمی ہوتی ہے۔ بٹگرام، کوہستان اور حالیہ واقعات میں زیادہ تر مقامی افراد اور آرمی نے ریسکیو کیا۔ ریسکیو اہلکار اکثر صرف لاشیں نکالنے میں متحرک نظر آتے ہیں، لوگوں کو بچانے کے لیے نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریسکیو 1122 کبھی کبھار اسکولوں میں آگاہی فراہم کرتا ہے، لیکن پرو ایکٹو میجرز کے بارے میں معلومات نہیں دی جاتیں۔ نہ ریڈیو استعمال ہوتا ہے، نہ لوکل چینلز، نہ سوشل میڈیا پر کوئی مؤثر مہم چلائی جاتی ہے۔

دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود کسی کو معلوم نہیں تھا، کیونکہ کسی کو آگاہ ہی نہیں کیا گیا۔ سیاح زیادہ تر دوسرے شہروں سے آتے ہیں، ان تک معلومات پہنچانے کے لیے میس میڈیا کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔

دریائے سوات پر خاص دنوں میں سیاحوں کا رش بڑھ جاتا ہے اور دریا کے کناروں پر ہوٹل بنانا انتظامیہ کی سب سے بڑی نااہلی ہے۔ اس حوالے سے ملٹی میڈیا جرنلسٹ کا کہنا ہے کہ سوات سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ بدقسمتی سے یہاں پر غیر قانونی ہوٹل، ریسٹورنٹس اور جھولے دریاؤں کے بیچوں بیچ یا کنارے پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ بائی پاس، جو کہ پہلے خالی تھا، اب پوری طرح غیر قانونی تعمیرات سے بھر چکا ہے۔ ان تعمیرات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی، بلکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ ادارے پیسے یا بھتہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال نقصان بڑھتا جا رہا ہے۔

مسئلہ بارش کی شدت سے زیادہ ایک ناتواں اور غفلت زدہ نظام کی ناکامی کا ہے، جس کی وجہ سے مناسب وقت میں اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال اس طرح کے خطرات لاحق ہوتے ہیں، جبکہ اس میں کے پی صوبائی اسمبلی ناکام ثابت ہوئی ہے۔

Sawat2

ملٹی میڈیا جرنلسٹ ادیب یوسفزئی نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت اکثر پنجاب سے تقابل کرتی ہے، لیکن خود کوئی منصوبہ نہیں لاتی۔ وعدے کیے جاتے ہیں، لیکن عمل نہیں ہوتا۔ جون کا مہینہ گزر رہا ہے، لیکن ابھی تک ایئر ایمبولینس بھی متعارف نہیں کرائی گئی۔ یہ سب صرف باتوں تک محدود ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کے پی حکومت کی امداد کے منتظر ایک ہی خاندان کے 18 افراد دریائے سوات میں بہہ گئے

سابق سینئر وزیر کے پی سراج الحق نے کہا ہے کہ  حقیقت یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس ہیلی کاپٹر (26 نشستوں والا)  ہیلی کاپٹر (4 نشستوں والا) کور کمانڈر کے زیر استعمال فوجی ہیلی کاپٹر کے وسائل موجود تھے، پھر سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی، ریسکیو کیوں نہ ہوا؟ کیا جان بچانا ہماری ریاست کی ترجیحات میں شامل نہیں؟کیا ہم صرف تصویریں، اعلانات اور بیانات کے لیے زندہ ہیں؟یہ کوئی قدرتی حادثہ نہیں، یہ انتظامی قتل ہے۔

عوامی حلقوں کی جانب سے حکومت سے یہ سوالات کیے جارہے ہیں کہ کیا یہ ریاستی نااہلی کا جنازہ ہے جو مینگورہ  سے اٹھا ہے۔ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ کس نے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی اجازت نہ دی؟ اگر ریسکیو ممکن تھا، تو تاخیر کیوں کی گئی؟ اس خاندان کے خون کا حساب کون دے گا؟

ان سوالات کے جوابات ہر عام آدمی جاننا چاہتا ہے، مگر شاید جنہوں نے دینے ہیں وہ نہیں۔ اب اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، حکومت کونسے اقدامات کرتی ہے اور ذمہ داروں کو کیا سزائیں دی جائیں گی اور کیا ان پر عمل در آمد بھی ہوگا؟ اس کا جواب تو اب وقت ہی بتائے گا۔

Author

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس