اقوامِ متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایروانی نے جوہری پروگرام سے متعلق عندیہ دیا ہے کہ اگر امریکا کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ طے پاتا ہے، تو ایران 60 فیصد اور 20 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخائر کسی دوسرے ملک منتقل کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔
تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ یہ رضامندی صرف اس صورت میں ممکن ہے جب مذاکراتی عمل میں ٹھوس پیش رفت ہو اور معاہدے کی بنیاد پر ایران کو اس کے جوہری حقوق تسلیم کیے جائیں۔
برقی جریدے المانیٹر کو دیے گئے انٹرویو میں ایروانی نے مزید کہا کہ اس اقدام کے بدلے ایران کو یلو کیک فراہم کیا جانا چاہیے، جو کہ یورینیم کا خام پاؤڈر ہے اور اسے جوہری ایندھن یا اسلحہ بنانے کے لیے مزید عمل سے گزارنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تین سال بعد ملک میں پہلی سزائے موت، یہ جاپانی مجرم کون تھا؟
انہوں نے ایک متبادل تجویز بھی پیش کی کہ افزودہ یورینیم کو ایران ہی میں عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے، بشرطیکہ معاہدہ طے پاتا ہے۔

ایروانی نے زور دیا کہ ایران اپنے میزائل پروگرام یا اندرونی افزودگی پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں کرے گا، اور نہ ہی اپنے دفاعی یا سائنسی پروگرام کو کسی معاہدے کی قیمت پر قربان کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران خطے میں موجود نیوکلیئر ری ایکٹر رکھنے والے تمام ممالک کے ساتھ ایندھن اور حفاظتی تعاون کے لیے تیار ہے، لیکن یہ تعاون ایران کے جوہری پروگرام کا متبادل نہیں بلکہ صرف ایک تکمیلی قدم ہونا چاہیے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا کے ساتھ کسی بھی ممکنہ معاہدے میں ضروری ہے کہ ایران کو این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے) کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر اس کے تمام قانونی حقوق حاصل ہوں، جن میں پرامن مقاصد کے لیے یورینیم کی افزودگی بھی شامل ہے۔
جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ ہفتے ایران کے ساتھ نئی بات چیت کا آغاز ممکن ہے۔ اگر یہ مذاکرات شروع ہوتے ہیں، تو ماہرین کے مطابق یہ ایران کے جوہری تنازع کے حل کی جانب ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔