پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو کبھی ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، آج زوال کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف ملک کی سب سے بڑی برآمدی قوت تھی بلکہ لاکھوں خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ بھی۔ مگر حالیہ اعدادوشمار کے مطابق، ملک کی 568 ٹیکسٹائل ملز میں سے 187 بند ہو چکی ہیں۔ یہ صرف کاروباری بحران نہیں بلکہ معیشت کے لیے ایک خطرناک الارم ہے۔
ماضی کی شان اور آج کی حقیقت
پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ماضی میں اپنی صلاحیت اور معیار کے باعث دنیا بھر میں مشہور تھا۔ فیصل آباد، جو کبھی ‘پاکستان کا مانچسٹر’ کہلاتا تھا، عالمی سطح پر برآمدات کا مرکز تھا۔ مگر آج، وہی صنعتی زون خاموش ہے۔
پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں 147 ملز بند ہو چکی ہیں۔ فیصل آباد میں 31، ملتان میں 33، اور قصور میں 47 ملز کی بندش اس بحران کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ ان بندشوں کے پیچھے صرف مشینیں خاموش نہیں ہوئیں، بلکہ لاکھوں خاندان بھی بے روزگاری کا شکار ہوئے ہیں۔
حکومتی ناکامی: مسائل اور وجوہات
ٹیکسٹائل انڈسٹری کی زبوحالی کے پیچھے مہنگی بجلی اور گیس، تاقص منصوبہ بندی، حکومتی بے بسی، روپے کی گرتی قدر، امپورٹ پالیسیاں اور سیاسی عدم استحکام جیسے بہت سے مسائل ہیں۔
پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ تک جا پہنچی ہے جس سے پیداواری لاگت ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے صنعت کو سہارا دینے کے لیے کوئی واضح پالیسی یا حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ برآمدات کا 60 فیصد فراہم کرنے والے اس شعبے کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے دباؤ کا شکار کر دیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں ڈالر کی قلت اور خام مال کی درآمد پر پابندیاں صنعت کو مزید بحران میں دھکیل رہی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف کاروبار کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ برآمدی ہدف کو بھی ناممکن بنا رہے ہیں۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام نے سرمایہ کاری کے مواقع کو محدود کر دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار لمبی مدت کی منصوبہ بندی سے گریز کر رہے ہیں۔ ان تمام مسائل نے اس انڈسٹری کے زوال میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
حکومتی دعوے اور تلخ حقیقت
حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ صنعت کی بحالی کے لیے اقدامات کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں کے برعکس ہیں۔ ‘ایکسپورٹ ریوائیول پیکج’ اور سبسڈی کے اعلانات محض کاغذی ثابت ہوئے ہیں۔ عملی اقدامات کی کمی نے صنعت کاروں کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔
بنگلہ دیش اور ویتنام نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو حکومتی تعاون کے ذریعے عالمی سطح پر مستحکم کیا۔ بنگلہ دیش نے سستی بجلی، مزدوروں کو مراعات اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے ذریعے اپنی برآمدات کو مستحکم رکھا۔ دوسری طرف پاکستان حکومتی نااہلی کے باعث اپنی موجودہ پوزیشن بھی کھو رہا ہے۔
ماہرین کی تجاویز
سابق صدر لاہور چیمبر آف کامرس کاشف انور نے ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری جو کبھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، آج شدید بحران کا شکار ہے۔ مہنگی بجلی اور گیس، غیر مستحکم معاشی پالیسیاں، بلند شرح سود اور خام مال کی قلت اس صنعت کی بندش کی اہم وجوہات ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں مسابقت کی کمی اور حکومت کی غیر سنجیدہ حکمت عملی نے بھی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ “توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پیداواری لاگت کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے جس سے برآمدات کم ہو رہی ہیں اور لاکھوں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر بجلی اور گیس پر سبسڈی فراہم کرنی ہوگی، کاروبار دوست اور طویل مدتی پالیسیاں بنانی ہوں گی، اور خام مال کی بروقت اور سستی فراہمی یقینی بنانی ہوگی۔ اس کے ساتھ برآمدات کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی مراعات اور عالمی مارکیٹ میں مسابقت کے قابل بنانے کے لیے رعایتی قرضے دینا ناگزیر ہے۔ مضبوط حکومتی پالیسی اور عملی اقدامات ہی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی کا واحد راستہ ہیں”۔
دوسری جانب ٹیکسٹائل ایکسپرٹ غلام رسول چوہدری نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ ٹیکسٹائل کی بحالی کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی لائی جائے، برآمدات کے لیے سبسڈی اور خام مال کی دستیابی کو یقینی بنانا جائے، ڈالر کی دستیابی اور امپورٹ پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے، طویل المدتی صنعتی پالیسی کا نفاذ کیا جائے، اور سیاسی استحکام کو یقینی بنا کر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جائے۔
پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زوال حکومتی بے حسی، ناقص منصوبہ بندی، اور نظرانداز رویے کا نتیجہ ہے۔ یہ بحران صرف ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کے روزگار اور ملکی معیشت کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اگر حکومت نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو پاکستان نہ صرف اپنی برآمدی پوزیشن کھو دے گا بلکہ معیشت کو سنبھالنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
اب وقت ہے کہ حکمران خواب غفلت سے نکل کر حقیقت کا سامنا کریں اور اس اہم صنعت کو بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں، ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔