تہران میں گزشتہ ماہ ہونے والے ایک مبینہ اسرائیلی حملے کے دوران ایرانی صدر مسعود پزشکیان زخمی ہو گئے تھے۔ یہ انکشاف ایرانی خبر رساں ایجنسی ’فارس‘ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس کے مطابق حملے کا ہدف ایران کی اعلیٰ سکیورٹی کونسل کا اجلاس تھا۔
رپورٹ کے مطابق، 16 جون کو ہونے والے اس حملے میں صدر پزشکیان کو ٹانگ پر معمولی زخم آئے۔ اجلاس میں ایران کی تینوں ریاستی اداروں کے سربراہان اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار شریک تھے۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ حملے کے فوری بعد حکام کو ایک خفیہ ہنگامی راہداری کے ذریعے عمارت سے نکالا گیا، جو پہلے سے ایسے کسی ممکنہ واقعے کے لیے تیار کی گئی تھی۔ عہدیدار اُس وقت عمارت کی نچلی منزلوں میں موجود تھے، جس سے جانی نقصان سے بچا جا سکا۔
’فارس‘ ایجنسی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسرائیل کو اجلاس کی تفصیلات تک درست رسائی ممکنہ داخلی جاسوسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایرانی حکام نے اس پہلو کی باضابطہ تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی اس انداز میں کی گئی تھی جو حزب اللہ کے سابق سربراہ حسن نصر اللہ پر کیے گئے ایک پرانے حملے سے مشابہ تھی۔
کارروائی میں چھ بم یا میزائل داغے گئے، جن کا ہدف عمارت کی داخلی و خارجی راہ داریاں تھیں تاکہ اہلکاروں کے فرار کے راستے بند کیے جا سکیں اور اندر موجود افراد کو آکسیجن کی فراہمی معطل ہو جائے۔ دھماکوں کے بعد عمارت کی بجلی بھی منقطع ہو گئی تھی، تاہم تمام شرکا محفوظ راستے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
ایرانی صدر نے گزشتہ ہفتے امریکی صحافی ٹکر کارلسن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں الزام عائد کیا کہ اسرائیل نے ان کے قتل کی کوشش کی۔ ان کے بقول: “انہوں نے کوشش کی، ہاں۔ اس سمت قدم اٹھایا، لیکن ناکام رہے۔”
صدر پزشکیان نے مزید کہا کہ یہ حملہ امریکہ کی بجائے اسرائیل کی جانب سے تھا۔ “میں ایک اہم اجلاس میں موجود تھا، اور جس علاقے میں ہم تھے، اُسی کو نشانہ بنایا گیا،” انہوں نے بتایا۔
ایرانی صدر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ وہ اپنی قوم کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے جان دینے سے نہیں گھبراتے۔ “اگر میری قربانی سے خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے تو میں اس کے لیے تیار ہوں، مگر سوال یہ ہے: کیا اس سے واقعی امن آئے گا؟”