Follw Us on:

غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیاں شدت اختیار کر گئیں، عالمی دباؤ میں اضافہ، اسرائیلی سیاست میں ہلچل

حسیب احمد
حسیب احمد
Hopeless, starving, and besieged
اسرائیل نے غزہ میں ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر فضائی حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 78 فلسطینی جان بحق ہو گئےہیں۔ (تصویر: ہیومن رائٹس واچ)

اسرائیل کی غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں تازہ ترین فوجی کارروائیاں عالمی سطح پر شدید تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطاق  گزشتہ روز اسرائیل نے غزہ میں ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر فضائی حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 78 فلسطینی جان بحق ہو گئےہیں۔

اس حملے کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے کے گاؤں برقا میں اسرائیلی قابضین نے فلسطینی فصلوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور وزارت صحت نے بتایا کہ اب تک غزہ میں 58,386 افراد جان بحق ہو چکے ہیں، جب کہ 139,077 افراد زخمی ہیں۔

اس کے علاوہ  اسرائیل نے مشرقی لبنان کے بکہا وادی اور شام کے سویدا علاقے پر بھی فضائی حملے کیے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ان علاقوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے شام اور لبنان میں بھی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

Israeli air strike kills six in eastern lebanon amid fragile ceasefire
 اسرائیل نے مشرقی لبنان کے بکہا وادی اور شام کے سویدا علاقے پر بھی فضائی حملے کیے ہیں۔ (تصویر: الجزیرہ)

سویدا میں یہ حملے خاص طور پر دروز فرقے کے علاقے میں کیے گئے ہیں جہاں مقامی لڑاکا گروپوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسرائیلی قابضین اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں میں مزید شدت آ گئی ہے جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف قتل و غارتگری اور حملوں میں اضافے کی تصدیق کی ہے۔

اس صورتحال نے عالمی برادری کو ایک نئی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور بہت سے انسانی حقوق کے اداروں نے ان کارروائیوں کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔

اسی دوران  اسرائیل کی سیاست میں بھی ایک نیا موڑ آیا ہے۔ اسرائیل کی انتہائی دینی جماعت ‘یونائیٹڈ تورا یہودا’ نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس جماعت کا موقف ہے کہ وزیر اعظم نے فوجی

Exclusive
‘یونائیٹڈ تورا یہودا’ نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ (تصویر: جے فیڈ)

بھرتیوں کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے  جس کے بعد اس جماعت نے حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سیاسی انشقاق کے نتیجے میں نیتن یاہو کی حکومت کی پارلیمنٹ میں اکثریت کمزور پڑ سکتی ہے جس سے اس کی سیاست پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی کابینہ کے دو انتہائی دائیں بازو کے ارکان  وزیر خزانہ بیزال ایل اسموٹریچ اور وزیر قومی سلامتی ایتامار بن گویر جنگ بندی کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فوج کو حماس کے مکمل خاتمے کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھنی چاہئیں۔
حماس نے بھی اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش کو رد کر دیا ہےاور اس کا موقف ہے کہ جنگ ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو اپنے اقدامات میں تبدیلی لانی ہوگی۔

Rise of far right political power in
اسرائیلی کابینہ کے دو انتہائی دائیں بازو کے ارکان  وزیر خزانہ بیزال ایل اسموٹریچ اور وزیر قومی سلامتی ایتامار بن گویر جنگ بندی کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ تصویر: بریکنگ ڈیفنس)

اس اسرائیلی حکومت کے موقف اور عالمی دباؤ کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور امن مذاکرات کی راہ میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ عالمی برادری اسرائیل کی کارروائیوں کو جنگی جرائم قرار دے رہی ہے اور اسرائیل ان کارروائیوں کو اپنے دفاع کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔

اس وقت صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے اور عالمی طاقتوں کا دباؤ اسرائیل کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔

اس تمام تناظر میں اسرائیل کے داخلی معاملات جنگ بندی کی پیشکش  اور عالمی سطح پر بڑھتا ہوا دباؤ ان سب نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں جس کا حل مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

Authors

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس