اسرائیل کی غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں تازہ ترین فوجی کارروائیاں عالمی سطح پر شدید تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطاق گزشتہ روز اسرائیل نے غزہ میں ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر فضائی حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 78 فلسطینی جان بحق ہو گئےہیں۔
اس حملے کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے کے گاؤں برقا میں اسرائیلی قابضین نے فلسطینی فصلوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔
غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور وزارت صحت نے بتایا کہ اب تک غزہ میں 58,386 افراد جان بحق ہو چکے ہیں، جب کہ 139,077 افراد زخمی ہیں۔
اس کے علاوہ اسرائیل نے مشرقی لبنان کے بکہا وادی اور شام کے سویدا علاقے پر بھی فضائی حملے کیے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ان علاقوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے شام اور لبنان میں بھی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سویدا میں یہ حملے خاص طور پر دروز فرقے کے علاقے میں کیے گئے ہیں جہاں مقامی لڑاکا گروپوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسرائیلی قابضین اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں میں مزید شدت آ گئی ہے جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف قتل و غارتگری اور حملوں میں اضافے کی تصدیق کی ہے۔
اس صورتحال نے عالمی برادری کو ایک نئی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور بہت سے انسانی حقوق کے اداروں نے ان کارروائیوں کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔
اسی دوران اسرائیل کی سیاست میں بھی ایک نیا موڑ آیا ہے۔ اسرائیل کی انتہائی دینی جماعت ‘یونائیٹڈ تورا یہودا’ نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس جماعت کا موقف ہے کہ وزیر اعظم نے فوجی

بھرتیوں کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے جس کے بعد اس جماعت نے حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سیاسی انشقاق کے نتیجے میں نیتن یاہو کی حکومت کی پارلیمنٹ میں اکثریت کمزور پڑ سکتی ہے جس سے اس کی سیاست پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی کابینہ کے دو انتہائی دائیں بازو کے ارکان وزیر خزانہ بیزال ایل اسموٹریچ اور وزیر قومی سلامتی ایتامار بن گویر جنگ بندی کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فوج کو حماس کے مکمل خاتمے کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھنی چاہئیں۔
حماس نے بھی اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش کو رد کر دیا ہےاور اس کا موقف ہے کہ جنگ ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو اپنے اقدامات میں تبدیلی لانی ہوگی۔

اس اسرائیلی حکومت کے موقف اور عالمی دباؤ کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور امن مذاکرات کی راہ میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ عالمی برادری اسرائیل کی کارروائیوں کو جنگی جرائم قرار دے رہی ہے اور اسرائیل ان کارروائیوں کو اپنے دفاع کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔
اس وقت صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے اور عالمی طاقتوں کا دباؤ اسرائیل کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔
اس تمام تناظر میں اسرائیل کے داخلی معاملات جنگ بندی کی پیشکش اور عالمی سطح پر بڑھتا ہوا دباؤ ان سب نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں جس کا حل مشکل دکھائی دے رہا ہے۔