اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کے بحران کا سامنا کرنے والے ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی گنجائش میں اضافہ ناگزیر ہے تاکہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات پوری کر سکیں۔
اقوام متحدہ میں ایس ڈی جی سیون توانائی کی پیشرفت کی رپورٹ 2025 اور ہائی لیول پولیٹیکل فورم 2025 کے پالیسی بریفز کے اجرا کے موقع پر قومی بیان دیتے ہوئے عاصم افتخار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان صاف توانائی کے اہداف کے لیے پرعزم ہے، سال 2024 میں پاکستان میں تقریباً چار کروڑ افراد بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم تھے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا ہدف ہے کہ 2030 تک 60 فیصد بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کی جائے۔ اس مقصد کے لیے حکومت 13 گیگاواٹ نیا ہائیڈرو پاور شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جب کہ نیوکلیئر انرجی کو بھی قابلِ اعتماد اور کم کاربن توانائی ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا کہ اگرچہ پائیدار ترقی کے ہدف 7 کی جانب پیش رفت ہوئی ہے، مگر دنیا بھر میں 675 ملین افراد اب بھی بجلی سے محروم ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پیش رفت غیر مساوی ہے۔
انہوں نے دنیا سے مطالبہ کیا کہ 2030 تک توانائی اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لیے سالانہ 4.3 ٹریلین امریکی ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
سفیر نے نشاندہی کی کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے صاف توانائی کی عوامی فنڈنگ صرف 21.6 ارب ڈالر ہے، جس میں سے 83 فیصد قرضوں کی صورت میں ہے۔ جب کہ زیادہ تر سرمایہ کاری ترقی یافتہ اور ابھرتی معیشتوں میں کی جا رہی ہے اور ترقی پذیر ممالک کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

سفیر عاصم افتخار احمد نے ترقی پذیر ممالک کو درپیش توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے تین اہم نکات پیش کیےکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی گنجائش میں اضافہ کیا جائے، ادارہ جاتی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے اور صاف توانائی کی سرمایہ کاری کے لیے درکار خطرات کو کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
ان کے علاوہ ایسے توانائی منصوبے تیار کیے جائیں جو دیگر سماجی فوائد بھی فراہم کریں، جیسے کہ پاکستان میں سیلاب کے بعد سولر کٹس کی تقسیم، جس سے بجلی، صحت، نقل و حرکت اور موسمیاتی حالات میں بہتری آئی۔
مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی اور تباہ کن بارشیں، قدرتی آفات یا ہمارا قصور؟
اپنے بیان کے اختتام پر پاکستانی مندوب نے کہا کہ دنیا میں توانائی کی منتقلی کا عمل جاری ہے، لیکن اگر اس کی درست منصوبہ بندی نہ کی گئی تو یہ منتقلی غیر مساوی اور منقسم ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دنیا ایسی صاف توانائی کی منتقلی کو یقینی بنائے جو کسی کو پیچھے نہ چھوڑے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ’’خاموش شمسی انقلاب‘‘ جاری ہے، جو کم درآمدی محصولات، سستی ٹیکنالوجی اور نیٹ میٹرنگ پالیسیز کے باعث ممکن ہوا ہے۔
واضح رہے کہ یہ تقریب گروپ آف فرینڈز آن سسٹین ایبل انرجی کی جانب سے پاکستان، ناروے، ایتھوپیا اور ڈنمارک کے اشتراک سے منعقد کی گئی تھی۔