Follw Us on:

پوری دنیا سے اجڑنے کے بعد نسل کشی کرنے لگے، تاریخ گواہ ہے!

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

یہودیوں کا نسل کشی سے تعلق آج سے نہیں ،بلکہ 2 ہزار سال پہلے سے ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں یہودیوں کے ساتھ بد ترین سلوک روا رکھا گیا ۔ 2ہزار سال پہلے روم کے باشندوں نے یہودیوں کو موجودہ اسرائیل سے نکال دیا تھا۔ اس علاقے سے نکلنے کے بعد یہودی پوری دنیا میں پھیلنے لگے مگر زیادہ تر اقوام نے انہیں قبول نہیں کیا۔ آج وہی قوم موجودہ اسرائیل اور فلسطین میں موجود ہے اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔

جرمنی میں ہونے والی تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی ،جسے ہالوکاسٹ کہا جاتا ہے،کے بعد بچ جانے والے یہودیوں نے یہ ضرورت انتہائی زیادہ محسوس کی کہ ان کا ایک الگ وطن ہونا چاہیے۔ ان کی یہ ضرورت14 مئی 1948 کو پوری ہوئی جب فلسطین میں یہودیوں نے اسرائیل کے نام سے اپنی ریاست کا اعلان کیا۔ اس زمین سے یہودیوں ، مسلمانوں  اور عیسائیوں  کی عقیدت کی بنیادی وجہ یہاں موجود مذہبی مقامات ہیں جو تینوں مذاہب کے لوگوں کے لیے مقدس ہیں۔ اسی وجہ سے تینوں مذاہب کے لوگ اس زمین کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو یہاں ہونے والی نسل کشی کی وجوہات میں سب سے اہم ہے۔

جب سے یہودیوں نے یورپ چھوڑکر فلسطین میں آباد کاری شروع کی ہے، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ 1947 میں اقوامِ متحدہ نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم  کر دیا جائے جبکہ یروشلم کو بین الاقوامی شہر  بنایا جائے۔ تاہم جب 1948 میں اسرائیلی ریاست کا اعلان ہوا تو اگلے ہی روز مصر، اردن، شام اور عراق نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔

یہ پہلی عرب اسرائیل جنگ تھی،جس کے بعد جہاں عرب ریاست بننا تھی وہ علاقہ مختلف ممالک کے قبضے میں آگیا۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے عرب اتحاد کو شکست دے کر ان کے مختلف علاقوں پہ قبضہ کر لیا۔ جن میں مصر سے غزہ کی پٹی اور سینائی، شام سے گولان اور اردن سے مشرقی یروشلم سمیت غرب اردن شامل ہیں۔

1973 کو مصر اور شام نے اپنے علاقے چھڑانے کے لیے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔  تاہم کچھ برس بعد دونوں ممالک نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا اور اپنے علاقے واپس لے لیے۔

فلسطین میں حماس نامی ایک عسکری گروہ برسرِاقتدار ہے اور اسرائیل کے ساتھ مسلسل جنگی حالت میں ہے۔ حماس نے 2007 میں فلسطین میں اقتدار سنبھالا۔ تب سے اب تک اسرائیل اور حماس کے بیچ متعدد جنگیں ہو چکی ہیں۔

خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق، 2جنوری 2025  تک فلسطین اور اسرائیل کی حالیہ جنگ میں صرف غزہ میں 45،581 لوگ مارے گئے ہیں جن میں 17،492 بچے شامل ہیں اور 11،160 لوگ لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ 108،438لوگ زخمی ہیں۔ حماس کے حملوں سے اسرائیل میں 1،139لوگ مارے گئے ہیں۔ 4 جنوری کو اسرائیل کی جانب سے غزہ پہ دوبارہ بمزگرائے گئےجس میں 150 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔

غزہ میں آدھے سے زیادہ لوگوں کے گھرتباہ ہوچکے ہیں۔ 88 فیصد سکول اور 68 فیصدسڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 200 سے زائد  فلسطینی شہریوں اور صحافیوں کو مارا جا چکا ہے۔

7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے کے 65 احکامات جاری کیے ہیں جب کہ فلسطینی غزہ کو اپنا وطن مانتے ہیں اور اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاری کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

اسرائیل اور فلسطین کی جنگ نے انسانیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ جنگ بندی ہوچکی مگر اسرائیل ابھی بھی بمباری سے باز نہیں آرہا۔

یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان علی فانی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہالوکاسٹ کے اسرائیلی عوامی پر نفسیاتی اثرات سے متعلق کھل کر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ” دنیا بھر میں رومن سلطنت سے لے کر پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک مغربی عیسائی ریاستوں اور اقوام نے یہودیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا، وہ انتہائی تکلیف دہ اور دل شکن تھا۔ اس عرصے میں صرف مسلم دنیا نے ہی یہودیوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور ان کے ساتھ جینے کے مساوی حقوق دیے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ “تاریخی طور پر جب 1492 میں سپین سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو عیسائی حکام نے وہاں کے تمام یہودیوں کو عیسائیت قبول کرنے کی شرط رکھی، یا پھر سپین سے نکل جانے کو کہا۔ اس کے بعد جو یہودی سپین سے نکلے انہیں سلطنت عثمانیہ نے خوش آمدید کہا اور اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی۔ مغربی عیسائی ریاستوں کی تاریخ یہودیوں کے ساتھ بدسلوکی کی داستان ہے جس کے نتیجے میں یہودی صدیوں تک دربدر رہے۔ عیسائی ریاستوں نے ان یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کی تجویز اس لیے پیش کی کہ وہ اپنے ملکوں سے انہیں نکال سکیں”۔

دوسری جانب گورنمنٹ گرونانک گریجوایٹ کالج ننکانہ صاحب کے شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر محمد بلال نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہالوکاسٹ کے اسرائیلی عوام پر اثرات کے حوالے سے کہا کہ ” ہولوکاسٹ نے اسرائیل کی قومی اور خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ ہولوکاسٹ کے بعد اسرائیل کی تشکیل ایک محفوظ وطن فراہم کرنے کے مقصد کے تحت ہوئی جہاں یہودیوں کو کسی بھی ممکنہ مظالم سے تحفظ مل سکے۔ یہ نظریہ اسرائیل کی قومی شناخت کا مرکزی عنصر ہے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ “ہولوکاسٹ کا ذکر اسرائیل کے عالمی تعلقات اور سلامتی کے معاملات میں ایک اہم دلیل کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت اور خودمختاری کے تحفظ کو یقینی بنانے کی پالیسی اسی تجربے سے متاثر ہے۔ ہولوکاسٹ کے اثرات کی وجہ سے اسرائیل نے عالمی برادری سے ہمدردی اور مالی امداد حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی”۔

فلسطینی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ ” تاریخ میں یہودیوں کے ساتھ ہونے والی ہولوکاسٹ یا نسل کشی کی طرح آج فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے وہ اسی ظلم کی دہائی ہے۔1917 میں بالفور ڈیکلیریشن کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں آبادکاری کی پیشکش کی گئی، جس کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کا فلسطین میں داخلہ شروع ہوا۔ فلطین پہنچ کر یہودیوں نے مسلمانوں کے ساتھ کام کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ صرف یہودیوں کو وہاں کام کرنے کا حق ہونا چاہیے”۔

اس حوالے سے پروفیسر محمد بلال کا کہنا ہے کہ “فلسطینی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نسل کشی کے زمرے میں دیکھنے کا انحصار تعریف پر ہے۔ اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق نسل کشی میں کسی قوم، نسل یا گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کی نیت شامل ہوتی ہے۔ کچھ مبصرین اسرائیلی پالیسیوں کو فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے، مکانات کی مسماری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے نسل کشی کے قریب سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ معاملہ پیچیدہ ہے، یہ معاملہ قانونی، سیاسی اور انسانی حقوق کے زاویوں سے تفصیلی تجزیہ کا متقاضی ہے”۔

ہالوکاسٹ کے اسرائیلی قیادت پر اخلاقی اثرات سے متعلق ڈاکٹر عرفان علی فانی کا کہنا ہے کہ “دوسری جنگ عظیم کے دوران 60 لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا گیا، جسے ہولوکاسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ صرف ہولوکاسٹ نہیں بلکہ صدیوں تک یہودیوں پر ہونے والے ظلم و ستم نے ان کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور رویوں میں شدت پیدا کی ہے”۔

دوسری جانب پروفیسر محمد بلال کا ماننا ہے کہ ” ہولوکاسٹ کے بعد اسرائیلی قیادت میں ایک دفاعی رویہ پیدا ہوا، جو اپنی بقا کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے۔ ماضی کے مظالم نے ایک ایسا ذہن تیار کیا جس میں اسرائیل کسی بھی ممکنہ خطرے کے خلاف سخت ردعمل دیتا ہے۔ یہ سخت گیری اخلاقی سوالات کو جنم دیتی ہے، کیونکہ فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں بعض اوقات ان اصولوں کے خلاف نظر آتی ہیں جن کا ذکر ہولوکاسٹ کے پس منظر میں کیا جاتا ہے”۔

اسرائیل اور فلسطینی تنازع اور بین الاقوامی قوانین پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ ” 1945 کے بعد سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو ظلم و ستم جاری ہے، اس پر مغربی ریاستوں کی خاموشی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ یہودیوں کے ساتھ گزشتہ صدیوں میں جو سلوک کیا گیا، اس کا انہیں ملامت اور جرم کا احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل جو بھی اقدامات کرتا ہےمغربی طاقتیں اسے قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں”۔

اس حوالے سے پروفیسر محمد بلال کا کہنا ہے کہ “اقوام متحدہ کے ذریعے قراردادیں نافذ کی جا سکتی ہیں، لیکن ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کی سیاست ایک رکاوٹ ہے، عالمی ادارے اسرائیل اور فلسطین دونوں پر انسانی حقوق کے قوانین کی پابندی کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں، اور عالمی عدالت انصاف تنازع کے قانونی پہلوؤں کو حل کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے، بشرطیکہ دونوں فریق تعاون کریں”۔

اسرائیلی پالیسیوں اور عالمی برادری کے کردار پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان کا کہنا ہے کہ “حال ہی میں 2023 کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ اور سیز فائر کے معاملے میں مغربی ریاستوں نے کچھ آواز بلند کی ہے، لیکن اس میں بھی امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی مکمل حمایت نظر آتی ہے۔ لیکن سیز فائر کی کامیابی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ کی بدولت ممکن ہوئی”۔

دوسری جانب پروفیسر محمد بلال کا اس بارے کہنا ہے کہ “عالمی برادری اسرائیل پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کے قوانین کا احترام کرے، اسرائیل کو دی جانے والی مالی امداد کو انسانی حقوق کی صورتحال سے مشروط کیا جا سکتا ہے، تنازع کے حل کے لیے عالمی برادری دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کو فروغ دے سکتی ہے، اور عالمی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی انجمنیں عوامی شعور اجاگر کر کے پالیسی پر اثر ڈال سکتی ہیں۔

ہولوکاسٹ کے اثرات اسرائیل کی قومی اور خارجہ پالیسی پر گہرے نقوش چھوڑ چکے ہیں، جس کی جھلک ملکی سلامتی کی ترجیحات اور دنیا بھر میں یہودیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوششوں میں نظر آتی ہے۔ اس تاریخی سانحے نے اسرائیل کو اپنی خودمختاری کے دفاع اور اپنے شہریوں کے لیے مضبوط حفاظتی نظام قائم کرنے پر آمادہ کیا۔ عالمی سطح پر یہ واقعہ اسرائیل کی سفارتی حکمت عملیوں میں اخلاقی جواز کے طور پر نمایاں رہا ہے۔ لیکن ان تمام عوامل کے پیش نظر اسرائیل ان پر ہوئے عیسائیت کے ظلم و ستم کا غصہ مسلمانوں پر نکال رہا ہے اور یہ بھول رہا ہے کہ یروشلم کی فتح سے لے کر دوسری جنگ عظیم کے بعد تک صرف مسلمانوں نے ہی یہودیوں کو اپنا کر انسانی حقوق فراہم کیے۔

 

 

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس