امریکا اور اسرائیل نے قطر میں جاری غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اپنی ٹیمیں واپس بلا لی ہیں۔
امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ حماس جنگ بندی کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہم متبادل راستے دیکھنے پر غور کر رہے ہیں ۔
تاکہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو اور غزہ کے شہریوں کے لیے استحکام پیدا کیا جا سکے۔ امریکا غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے مگریہ افسوسناک ہے کہ حماس نے خود غرضی کا مظاہرہ کیا۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے بھی تصدیق کی کہ اسرائیل نے قطر میں موجود اپنی مذاکراتی ٹیم کو واپس بلا لیا ہے۔

اس سے قبل حماس نے جنگ بندی کے لیے قطر مصر اور امریکاکے ثالثی کردہ فریم ورک کے جواب میں اپنی تازہ تجاویز جمع کرائی تھیں۔
حماس نے امریکی بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم مذاکرات جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہتی ہے جو رکاوٹوں کو ختم کر کے مستقل جنگ بندی معاہدے کی طرف لے جائے۔
غزہ میں جاری انسانی بحران کے پیش نظر عالمی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور امدادی ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ خوراک کی شدید قلت کے باعث علاقے میں قحط کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ اسرائیلی حملوں کے آغاز سے اب تک غذائی قلت کی وجہ سے 115 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جاری مذاکرات میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز زیر غور ہے جس کے تحت حماس دس یرغمالیوں کو رہا کرے گی جبکہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا اور امداد کی فراہمی میں اضافہ کرے گا۔ فریقین کے درمیان اختلاف کا بنیادی نکتہ جنگ بندی کے بعد کی صورت حال سے متعلق ہے۔

اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ غزہ میں عسکری موجودگی برقرار رکھے گا تاکہ حماس کو مکمل طور پر شکست دی جا سکے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ نے رواں ماہ ایک منصوبہ پیش کیا جس میں غزہ میں ایک نام نہاد انسانی شہر قائم کرنے اور فلسطینیوں کو وہاں منتقل کرنے کی بات کی گئی۔
عالمی خبر رساں ایجنسیوں اور ناقدین کے مطابق یہ تجویزعالمی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔
مقامی و عالمی حلقے یہ جاننے کے منتظر ہیں کہ امریکا کا یہ اقدام مذاکراتی دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی ہے یا مذاکراتی عمل کا خاتمہ ہے۔ اس وقت تک فریقین نے اپنے اگلے اقدامات کے بارے میں کوئی واضح مؤقف نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں: قحط، بمباری اور میڈیا پر پابندیاں: غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا
واضع رہے کہ فرانس نے اعلان کیا ہے کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔
فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے ایک خط کے ذریعے فلسطینی صدر محمود عباس کو اس فیصلے سے آگاہ کیا اور کہا کہ یہ اقدام مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی امید کے تحت اٹھایا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ غزہ میں جاری جنگ کے دوران اب تک 59 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک اور ایک لاکھ 43 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے یہ حملے 7 اکتوبر 2023 کو اپنے علاقوں پر حملوں کے بعد شروع کیے تھے جن میں 1 ہزار 139 افراد مارے گئے تھے اور 200سے زائد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔