سپریم کورٹ نے قبل از گرفتاری ضمانت مسترد ہونے کے بعد گرفتاری کے عمل میں تاخیر سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
عدالت نے واضح کیا ہے کہ ضمانت مسترد ہوتے ہی ملزم کی فوری گرفتاری ضروری ہے اور صرف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے سے گرفتاری نہیں روکی جا سکتی۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سنایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ عبوری تحفظ کوئی خودکار حق نہیں بلکہ اس کے لیے عدالت سے باقاعدہ اجازت لینا ضروری ہے۔
عدالت نے اس رائے کا اظہار ملزم زاہد خان اور دیگر کی درخواست ضمانت سے متعلق کیس میں کیا جس میں لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے باوجود چھ ماہ تک ڈی ایچ ایس کی جانب سے گرفتاری کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی طرف سے عدالتی حکم پر عملدرآمد میں تاخیر انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ عدالت کے مطابق انصاف کی بنیاد عدالتی احکامات پر فوری عملدرآمد ہے۔
سپریم کورٹ کے مشاہدے کے مطابق انسپکٹر جنرل پنجاب نے پولیس کی کوتاہی تسلیم کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کے لیے سرکلر جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ پولیس کی جانب سے گرفتاری میں تاخیر کو انتظامی سہولت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا کیونکہ ایسی تاخیر انصاف کے نظام اور عوامی اعتماد کو نقصان پہنچاتی ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ میں اپیل زیر التوا ہو تب بھی گرفتاری سے تحفظ ممکن نہیں جب تک عدالت خود اس حوالے سے کوئی حکم جاری نہ کرے۔
درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے اپیل واپس لینے کے بعد عدالت نے درخواست کو نمٹا دیا۔